ُپروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کے ساتھ ایک نشست
السلام علیکم میں ڈاکٹر علی ساجد چیئرمین لاہور سکول آف مینجمنٹ ہوں۔ آج میں کراچی حاضر ہوا ہوں ڈاکٹر سروش لودھی سے ملاقات کرنے کے لیے۔ ڈاکٹر سروش لودھی صاحب این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ ڈاکٹر سروش لودھی صاحب سے میرے تقریباً پچھلے 25 سال سے اچھے تعلقات ہیں ۔پنجاب انجینئرنگ کونسل میں بھی ہم اکٹھے کام کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بہت ہی متحرک وائس چانسلر ہیں۔
این ای ڈی یونیورسٹی کو متحرک اور فعال اور بہتر کرنے میں ان کا بہت کردار ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک اچھے انجینیر بھی ہیں۔ اور ڈاکٹر صاحب کی ایک بہترین خصوصیت ہے کہ وہ ایک بہترین انسان ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں بہتر سے بہترین چیزیں لانے میں، سوچ کو تبدیل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مثبت تبدیلی لانے کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی میں بہت سارے تجربات کیے اور کامیابی حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب اتنے جدت پسند ہیں کہ جب تعلیم کے معاملے میں میری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی ہے ،تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بات نہیں کر رہا بلکہ کسی امریکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بات کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا ہے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ تعلیم کے حوالے سے آپ کے خاندان کا ایک تاریخی کردار ہے ۔ اور آپ کے خاندان کی کاوش کی خوشبو آپ کی شخصیت میں بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ وضع داری آپ کی شخصیت کا بہترین پہلو ہے۔
ڈاکٹر صاحب آپ سے میرا یہ سوال ہے کہ آپ نے زندگی کا آغاز کہاں سے کیا اور کیسے کیا؟
ڈاکٹر سروش لودھی: ڈاکٹر علی ساجد صاحب آپ کا بہت شکریہ آپ مجھ سے ملنے کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ آپ مجھے اتنی محبت دے رہے ہیں ۔ میں آپ کا بہت مشکور ہوں۔ ڈاکٹر صاحب میں تھوڑا سا پیچھے جانا چاہوں گا میرے والدین دونوں ہی درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ میرے والد صاحب ایک پروفیسر تھے اور تقریباً 30 سال سے زیادہ عرصے تک میری والدہ بھی ایک بہت بڑے سکول کی پرنسپل رہی ۔ گھر میں تعلیم کا ماحول تھا ۔ تعلیم کے حوالے سے والدین رہنمائی بھی کرتے تھے۔ باقی خاندانوں میں جس طرح کثیر الاولاد کا ایک سلسلہ تھا۔ ہمارا خاندان بھی وسیع تھا۔ ہم سات بہن بھائی تھے۔ اس کے باوجود میرے والدین نے ہر بچے کو اس طرح سے پالا جس طرح وہ ایک لوتا تھا۔ میں اپنے والدین سے اتنا متاثر تھا کہ شاید میں نے دوسری جماعت میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بھی اپنے والدین کی طرح استاد بنوں گا۔ اور اس فیصلے کے بعد میں کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ مجھے واضح ہو چکا تھا کہ میں نے ایک استاد بننا ہے۔لہذا طالب علمی کے دَور سے ہی میں یہ سوچا کرتا تھا کہ استاد کی حیثیت سے مجھے کیا کچھ کرنا ہوگا۔ اس کی مثال میں اس طرح سے دوں گا۔ جب کلاس میں ٹیچر نہیں ہوتا تھا تو میں وائٹ بورڈ کے اوپر جا کر لکھا کرتا تھا، تاکہ وائٹ بورڈ کے اوپر لکھنے کی میری عادت بنے اور وائٹ بورڈپر لکھنےسے میری لکھائی بہتر ہو۔ جب آپ کم عمری سے اتنی محنت کر رہے ہوں تو قدرت اس کا صلہ بھی ضرور دیتی ہے۔ میرے والدین اور ان کے والدین ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ ان کے لیے نئی جگہ پراپنی جگہ بنانا بہت مشکل تھا ۔ جدوجہد کے باوجود اللہ کا بہت شکر ہے کہ ہماری زندگی آرام دہ گزری۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ اگر اپنی تعلیمی حوالے سے کچھ بتانا چاہیں تو؟
ڈاکٹر سروش لودھی: بہادر آباد میں ایک سکول تھا چلڈرن ہوم کے نام سے میں وہاں پہ پڑھتا تھا۔ میں نے وہاں سے میٹرک کیا ہے۔ میٹرک میں ہمارے نمبر اچھے آئے۔ اس دوران میرے والد صاحب ایس ایم کالج کے پرنسپل ہوا کرتے تھے ۔ میٹرک کرنے کے بعد کسی اور کالج کا خیال ہی نہیں گیا ۔جہاں والد صاحب تھے وہیں پر انٹر میڈیٹ کرنے کے لیے چلے گئے۔ میرے والد صاحب اصولوں کے بہت پابند تھے۔ انہوں نے مجھے حکم تو دیا اس کالج میں داخلہ لینے کے لیے لیکن لائن میں لگنا پڑا۔ میرے لیے یہ ایک تربیت کا حصہ تھا کہ اگر آپ کے والد صاحب کسی ادارے کا سربراہ ہیں، تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کو آسائش ملنا شروع ہو جائے۔آپ کو سہولیات ملنا شروع ہو جائیں۔ آپ کو اپنی محنت کرنی چاہیے۔ قدرتی طور پہ کچھ افادیت حاصل ہوتی ہے یہ ایک الگ بات ہے۔ جب گیارہویں جماعت میں مجھے مارکس شیٹ ملنی تھی تو میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ فلاں کمرے کی کھڑکی سے لائن میں لگ کے اپنا رزلٹ کارڈ لے لو۔ ایسا نہیں تھا کہ پرنسپل کے کمرے میں بٹھا کے میرا رزلٹ کارڈ میرے حوالے کر دیا گیا ہو۔ میرے والد صاحب بہت شفیق انسان تھے۔ اور اپنے دور کے حوالے سے بہت ہی بہترین والد ثابت ہوئے ۔ ہمارے ساتھ وہ بالکل دوستانہ رویہ رکھتے تھے۔ ہمیں ان سے بہت زیادہ خوف یا دہشت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن عزت اور احترام کا دائرہ ہمیشہ رہتا تھا۔ ایس ایم کالج وہی جگہ ہے جہاں سندھ مدرسۃ الاسلام تھا اور قائد اعظم ؒنے بھی وہیں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ بہت بڑا اور تاریخی ادارہ ہے۔ اب سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی بھی بن چکی ہے۔ بہت اچھا ادارہ تھا ہم نے وہاں سے پڑھا اور ماشاءاللہ! اللہ کا شکر ہے کہ وہاں سے اچھے نمبر بھی لیے ۔ پڑھائی کے معاملے میں، میں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں تھا۔ میں نے تعلیم کو ذہن پہ سوار نہیں کیا ہوا تھا ۔ کھیل کے معاملے میں، میں بہت متحرک تھا ہاکی اور کرکٹ میں میں شامل ہوا کرتا تھا۔ میرے والد بھی ہاکی کے مشہور کھلاڑی تھے۔ مجھے بھی ہاکی میں بہت دلچسپی تھی۔ والد صاحب کی طرف سے مجھے یہ شوق ملا اور آج بھی مجھے کھیلوں کا بہت شوق ہے۔ اس کے بعد این ای ڈی یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ میں داخلہ ہو گیا۔ جب ہم انجینئرنگ میں داخلہ لینے کے لیے گئے تو ہمارے سامنے تین شعبے تھے مکینیکل انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ اور سول انجینئرنگ۔ اس کے باوجود کہ میرے والدین پڑھے لکھے تھے، میں نے بالکل ہی سادہ انداز سے یہ اندازہ لگایا کہ مکینیکل انجینئر صرف ایک مکینک ہی ہوتا ہے جو کہ مجھے نہیں بننا تھا اور الیکٹریکل انجینئرنگ مجھے سمجھ نہیں آئی اس کے بعد مجھے سول کا لفظ اچھا لگا تو میں نے سول انجینئرنگ کر لی۔ اس کے بعد سول انجینئرنگ سے ہمیں محبت ہو گئی پھر اس ادارے سے بھی محبت ہوگی۔ آج ہم جہاں پہ بیٹھے ہیں یہ وہی جگہ ہے۔ یہاں سے انجینئرنگ کرنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ مقامی کنسلٹنٹ کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد اللہ نے موقع دیا اور میں امریکہ چلا گیا۔ اوریگن سٹیٹ یونیورسٹی سے میں نے ماسٹرز کیا۔ 1988ء سے میں پھر واپس پاکستان آگیا۔ تب سے لے کے آج تک میں این ای ڈی یونیورسٹی سے وابستہ ہوں پہلے میں بطور لیکچرار تھا اور اسی طرح سے ترقی کرتے کرتے آج میں این ای ڈی یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوں۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے گا کہ آپ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟
ڈاکٹر سروش لودھی: سنٹرل گورنمنٹ کی ایک سکالر شپ تھی۔ 1994 ءمیں مجھے سکالرشپ ملی۔ اس کے بعد میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے انگلینڈ گیا۔ ایڈن برا میں ایک یونیورسٹی ہے وہاں سے میں نے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ میں تقریباً چار سال وہاں پہ رہا اور 1998 ءمیں واپس آگیا۔ اس دوران میں یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا ۔مجھے ترقی دے دی گئی اور مجھے ڈائریکٹر کوالٹی ایشورنس لگا دیا گیا۔ مجھے کافی کوشش اور مشقت کے بعد اس میں کافی کامیابی ملی اللہ کا بہت شکر ہے۔ 2002 ءمیں این ای ڈی یونیورسٹی آئی ایس او سرٹیفائیڈ ہوئی۔ اس دوران میں فرسٹ کوالٹی ایشورنس ڈائریکٹر تھا۔ آج بھی اس یونیورسٹی کے جو کاغذات اور دستاویزات ہیں، وہ میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ جب ہم اس وقت کاغذی کاروائی کر رہے تھے اس دوران یہ سمجھ آیا تھا کہ در اصل مینجمنٹ ہوتی کیا ہے؟ سسٹم کیسے بنایا جاتا ہے؟۔عموماً ایک معلم کو مینجمنٹ کا کوئی خاص اندازہ نہیں ہوتا۔ تعلیم کے ساتھ مجھے یہ بھی سمجھ آیا کہ آڈِٹ کیا ہوتا ہے؟ فائنانس کیا ہوتی ہے؟ رجسٹرار کا کیا کام ہے؟ کاغذی کاروائی کیسے ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ 2010ء میں، میں پروفیسر بن گیا۔ اس دوران میری عمر تقریباً 38 سال تھی۔ اس عمر میں میرے لیے پروفیسر بننا ایک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ 2005 ءمیں مجھے این ای ڈی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے لاہور بھیج دیا۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو کالج سے نیشنل مینجمنٹ کورس کیا۔یہ وہ کورس ہوتا ہے جو 20ویں گریڈ کے افسران کو کرایا جاتا ہے، 21 اور 22 گریڈ کے لیول تک جانے کے لیے۔ وہاں پہ مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں سے مجھے اندازہ ہوا کہ پالیسیز کیسے بنتی ہیں؟۔ اور ان پالیسیوں کے اوپر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے؟۔ یہ کلاس بہت بڑی ہوا کرتی تھی اور وہاں پر سارے تجربہ کار لوگو ہوتے تھے ۔ اس کلاس میں آئی جی بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ کمشنر بھی ساتھ ہوتے تھے ڈائریکٹرز بھی ساتھ ہوتے تھے۔ عمر میں ہمارا فرق تھا۔ لیکن ہمارا گریڈ ایک ہوا کرتا تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس کلاس کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ میرا بہت نیٹ ورک بھی بنا ۔لوگ مختلف اداروں میں چلے گئے کام کرنے کے لیے لیکن آج بھی وہ رابطے میں ہیں۔ اس کورس کے دوران آپ کو گورنمنٹ اور گورنمنٹ کا بہت اندازہ ہوتا ہے۔ میرا شعبہ تعلیم تھا اور تحقیق تھا تو اس حوالے سے تحقیق میں میں بہت شغف رکھتا تھا۔ میں 2017ء میں وائس چانسلر بنا اور اس سے پہلے میں نے بہت تدریس اور تحقیق کی۔ مجھے تحقیق اور تدریس کے ساتھ سفر کرنے کا بہت شوق ہے اور اللہ نے میرا یہ شوق اس طرح سے پورا کیا کہ میں تقریباً 30 ملکوں میں جا چکا ہوں۔ کچھ ممالک تو ایسے ہیں، جیسے ترکی ،نیپال اور بہت سارے ممالک ہیں جہاں مجھے اندازہ ہی نہیں کہ میں کتنی دفعہ گیا ۔ مختلف ممالک میں جانے سے اور ان کے تعلیمی اداروں میں جانے سے آپ کی صلاحیتوں میں بلینڈنگ کی مزید صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔میں آج بھی تقریباً 12 سے 14 یونیورسٹیز کے سینڈیکیٹ کا ممبر ہوں۔ میں سندھ میں پرائیویٹ پبلک بورڈ کی پارٹیز کا ممبر ہوں۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ممبر ہوں۔سندھ انفراسٹرکچر کمپنی کا بورڈ کا ممبر ہوں۔ ٹرانس کراچی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر ہوں۔ان چیزوں سے آپ کو کوئی تنخواہ نہیں ملتی لیکن آپ کا دائرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس سے آپ کو بہت سارے اداروں کو ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں کیسے چلتے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ ان سب کا تعلق میری یونیورسٹی سے بھی ہے اس کے اوپر بھی ان کے اثرات آتے ہیں۔ اور ایسی چیزوں سے معاشرے کے اوپر بھی بہت اثرات پڑتے ہیں۔ اور ان سب چیزوں سے میں اطمینان محسوس کرتا ہوں۔ اور اگر آپ مجھے اجازت دیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ مجھے ان چیزوں سے مزہ آتا ہے لطف آتا ہے۔ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس عمر میں بھی میں چیزوں کو شوق سے کرتا ہوں اور اپنے شوق پورے کر رہا ہوں میں ان چیزوں کو بوجھ نہیں سمجھتا۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ پر اللہ کا خاص کرم ہے ۔آپ کی اپنے آپ کے ساتھ جو عزم ہے وہ بھی قابل تحسین ہے۔ اور یہی بات ہے کہ آپ اس کام کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں ۔ میں بھی شعوری طور پر اس شعبے میں آیا۔ مجھے بہت اچھے طریقے سے یاد ہے ۔جب میں یو ای ٹی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔ میں نے لاہور سکول آف مینجمنٹ کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔ میں رات دیر تک اپنے آفس میں بیٹھ کے کام کیا کرتا تھا۔ ہم اتنی محنت سے کام کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ میری نماز قضا ہو جاتی تھی تو اکٹھی بستر پہ لیٹ کے میں نمازیں پڑھا کرتا تھا۔
ڈاکٹر سروش لودھی: ڈاکٹر صاحب بہت خوب، میری زندگی بھی اس سے مختلف نہیں ہے میں نے تقریباً زندگی کے 10 سال ایسے ہی گزارے ہیں۔ ان دس سالوں میں مجھے یاد ہے کہ میں نے کوئی چھٹی نہیں کی۔ میں نے اتوار کو بھی کوئی چھٹی نہیں کی۔ یہاں تک کہ کوئی بھی سرکاری چھٹی عید کی ہو یا محرم کی تو وہ بھی چھٹی نہیں کی۔ ایسے جنون کے بعد کچھ نتائج آتے ہیں اور ادارے تو اس محنت سے کم نہیں بنتے۔ میرے والد صاحب کیونکہ خود پروفیسر تھے ۔ایک دفعہ وہ میری بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ سروش کہاں پر ہے؟ میری بیوی نے انہیں بتایا کہ سروش یونیورسٹی گئے ہوئے ہیں۔ میرے والد صاحب بڑے حیران ہوئے اور بڑی حیرانگی سے انہوں نے کہا کیا تمہیں واقعی پتہ ہے کہ وہ یونیورسٹی جاتا ہے کہیں اور تو نہیں جا رہا؟
اکثر میں کام سے دیر سے آیا کرتا تھا۔ میرے والد صاحب پوچھتے تھے کہ تم اتنی دیر سے کیوں آتے ہو تو میں انہیں بتاتا تھا کہ کام ختم ہی نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے مجھے دیر سے آنا پڑتا ہے۔ تو اس پر وہ کہتے تھے کہ کام ختم نہیں ہوتا۔ اس کو ختم کرنا پڑتا ہے اور گھر کو بھی وقت دینا پڑتا ہے۔
مجھے یاد ہے۔ جب میں نے پڑھانا شروع کیا تھا۔ ان دنوں یونیورسٹیز میں بہت افرا تفری ہوا کرتی تھی۔ تنظیمی حوالے سے ،سیاسی حوالے سے بہت مسائل اور جھگڑے رہتے تھے۔ اس وجہ سے میں بہت دل برداشتہ تھا۔ میں نے والد صاحب سے اس بات کا اظہار کیا کہ نظم و ضبط کا بہت مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر (ساجد علی) صاحب آپ کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ 1980ء کی دہائی میں یونیورسٹیاں ایک میدان جنگ بنی ہوتی تھی۔
میری بات سن کر میرے والد صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ در اصل مسئلہ یہ ہے کہ تم غلط جگہ پہ محنت کر رہے ہو۔ تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ امتحان کے تین گھنٹے میں آپ کامیابی حاصل کر لو۔آپ پچھلے نو مہینوں میں محنت کیوں نہیں کرتے۔ آپ لوگ تعلیم کے نو مہینوں میں کام کرو۔ یہ تین گھنٹے کی بہت زیادہ محنت ختم ہو جائے گی۔ اور یہ سب کچھ ہم نے اس طرح سے ہوتے ہوئے دیکھا بھی۔ اداروں میں نظم و ضبط آتے ہوئے ہم نے خود دیکھا۔ جب طالب علم روزانہ کلاس میں جاتا ہے ۔وہاں مہذب انداز سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ تو وہ امتحان کے دنوں میں بھی اس نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یونیورسٹی میں جو بھی طالب علم آتا ہے 18 سال سے 22 سال کی عمر کا ان کی عمر اس طرح کی ہوتی ہے کہ اس عمر میں سوچ خالص ہوتی ہے۔ ان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے ۔ ایسے بچے دل سے اور ایمانداری کے ساتھ کوئی بہتر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ ہمارے جیسے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے طلبہ کو مثبت سمت میں مصروف رکھا جائے۔ کمرہ جماعت میں تو سارے مصروف ہو جاتے ہیں۔اصل مصروفیت کمرہ جماعت سے باہر ہوتی ہے۔ مصروفیت کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف نظر آتے رہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ کو نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ہم نے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے کلب اور سوسائٹیز بنائے ہوئے ہیں۔کھیل کے میدان بنائے ہوئے ہیں لیبارٹریز بنائی ہوئی ہیں۔ لائبریریز بنائی ہوئی ہیں۔ آپ بھی اس بات کو سمجھیں گے کہ جتنے بھی ہامارے یادگار واقعات ہیں ان میں اکثر کمرہ جماعت سے باہر کی ہیں۔ کمرہ جماعت کے اندر کوئی دلچسپ کہانی نہیں ہوتی تھی ۔ نجی یونیورسٹیز میں 13500 ہزار طلباء ہیں۔ آپ سب کو یہ سہولیات نہیں دے سکتے۔ لیکن جتنوں کو دے سکتے ہیں ان کو توسہولیات مہیا کریں۔آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ اساتذہ کی تربیت کریں۔ وہ پھر اپنے طلبہ کو یہ ساری سہولیات مہیا کریں گے۔ ہمارے اساتذہ کو بالکل پروفیشنل ہونا چاہیے۔ پروفیشنل ٹیچر یہ نہیں ہوتا کہ وہ صرف پڑھاتا رہے۔ اس کو طلبہ کا کردار بھی منظم انداز میں بہتر کرنا ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم اساتذہ کسی فلمی اداکار سے کم نہیں ہیں ۔ اساتذہ کے خیالات، اساتذہ کا رویہ، اساتذہ کا مزاج ،اساتذہ کا کردار اگلی نسل تک جاتا ہے۔ اساتذہ کا کردار اچھا ہو یا برا ہو وہ اگلی نسل تک ضرور منتقل ہوتا ہے۔ لوگ اچھے استاد کو دل سے عزت دیتے ہیں۔ معاشرے تبدیل ہوتے ہیں اور ہمارا معاشرہ بھی اس تبدیلی کا شکار ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں کہوں گا کہ اچھے استاد کی قدر آج بھی معاشرے میں موجود ہے۔ اس میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ استاد سخت مزاج ہے یا نہیں ہے۔ چاہے استاد سخت مزاج ہو لیکن دل کا اچھا ہے اور ایماندار ہے تو وہ طالب علم اس کی سختی برداشت کرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سختی کے پیچھے اسی طالب علم کا فائدہ ہے۔ اور وہ سختی جو ایک اچھا اور ایماندار استاد کرتا ہے وہ ایک تنبیہ کی حد تک ہوتی ہے۔ نقصان پہنچانے کی حد تک نہیں ہوتی۔ یہ بات طالب علم کو محسوس ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب !میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سناتا ہوں کہ میں 1976 ءداخل ہوا میٹرک کے بعد۔ میں نے وہاں پہ دیکھا کہ یہاں پہ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ پڑھتے تھے۔ اس دوران میں نے سوچا کہ کیا میں ان جیسا بن پاؤں گا کیا میں؟۔ اس کالج میں میں نے بہت ساری نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اور اس کے بعد جب میں امریکہ گیا، واشنگٹن ڈی سی میں، تو وہاں پہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تقریباً 26 لڑکے اور لڑکیاں آئی ہوتیں تھیں۔ان میں سے بہتر کارکردگی صرف ان طلباء کی تھی جنہوں نے کلاس کے علاوہ بھی بہت ساری سرگرمیوں میں حصہ لیا ہوا تھا۔
ڈاکٹر سروش لودھی: جی ڈاکٹر صاحب! میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔دیکھیں کتابی علم تو ایک حد تک معاشرے میں جا کے رک جاتا ہے اس کے علاوہ اگر آپ کے رابطہ کرنے کی صلاحیت ہے لوگوں کے ساتھ مل جل کرنے کی صلاحیت ہے آپ کی شخصیت بہت نمایاں ہے اور پُر اثر ہے آپ کا لہجہ بہت اچھا ہے، تو ایسی چیزوں کی تو معاشرے کو ضرورت ہے۔ اور یہی چیز ایک بہت اعلیٰ سربراہ بنانے کی چیزیں بھی ہیں۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب این ای ڈی یونیورسٹی میں کیا آپ لیڈر پیدا کرنے کے لیے بھی کچھ کر رہے ہیں یا نہیں؟
ڈاکٹر سروش لودھی: ڈاکٹر صاحب میں اس حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ بالواسطہ طور پر تو بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی زبانیں سیکھنے کے لیے بھی کورسز لازمی کرائے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ میرے مطابق جب آپ کسی بھی قوم کی یا کسی بھی ملک کی زبان سیکھتے ہیں تو وہ صرف زبان نہیں سیکھتے اس زبان سے آپ کو اس کا کلچر سمجھ آتا ہے اب وہ کلچر بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تو پھر ہم نے کمیونٹی سروسز کا آغاز کیا کہ ہر طالب علم کے لیے لازمی ہے کہ وہ 24 گھنٹے اپنے معاشرے میں وقت گزارے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اس طالب علم کو یہ سمجھ آئے کہ معاشرے کے ساتھ ربط کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ معاشرے کے ساتھ مل جل کے چلنا بھی ضروری ہے معاشرے سے الگ ہو کے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ میرے نزدیک جو انجینئر ہے اس کا صرف ایک ہی کام ہے کہ معیار زندگی کو بہتر سے بہتر کرنا چاہے وہ کسی بھی قسم کا انجینئر کیوں نہیں ہے ؟اس کا یہی کام ہے۔ کوئی انجینئر گھر بنا رہا ہے کوئی انجینئر سڑک بنا رہا ہے کوئی انجہنیر کمپیوٹر بنا رہا ہے۔ کوئی انجینئر موبائل بنا رہا ہے۔ کوئی انجینئر مشینیں بنا رہا ہے۔ جس سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور یہی انجینئر کا کام ہے۔ تو جب تک کوئی بھی انجینئر معاشرے میں نہیں جائے گا تو اس کو معاشرے کی ضروریات کا پتہ کیسے چلے گا ؟جس کو اس نے بہتر کرنا ہے۔ ہم نے سٹیم سینٹرز کا آغاز کیا ہے۔ جس میں چھٹی، ساتویں ،آٹھویں اور نویں کے طالب علم کو سائنس کی طرف رغبت دے رہے ہیں تاکہ شروع سے ہی وہ سائنس کے بارے میں بہت اچھا ویژن رکھتے ہوں۔
ایک اور چیز میں سمجھتا ہوں، جو بہت مناسب اور بہت ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ کامیابی کے معیار طے کرنا اور نمونے پیش کرنا۔ اور اپنے طالب علموں کو یہ سمجھانا کہ ان لکڑی کے بینچوں کے اوپر بھی بیٹھ کر آپ بین الاقوامی معیار کے لیڈر بن سکتے ہیں۔ ایسے معیار اور نمونے ہم نے اپنے طلبہ کو دکھانے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے ایلومینائی انگیج کیے ہیں۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی کے جو بھی ایلومینائی ہیں وہ متحرک طور پہ منسلک ہیں ہمارے ساتھ۔ اور میرا خیال ہے پاکستان کی کوئی بھی دوسری یونیورسٹی ایسا کام نہیں کر پا رہی۔ سب سے بڑی جو شمولیت ہے وہ سکالرشپس میں ہے اور میں سمجھتا ہوں سکالرشپ کے اوپر سب سے زیادہ حق اس درمیانے طبقے کے افراد کا ہے۔ جو تعلیم نہیں حاصل کر سکتے۔ امیر آدمی کے پاس بہت زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ 2017 ءمیں جب میں نے یہ دفتر سنبھالا اس وقت ہم 33 ملین کی سکالرشپس دیتے تھے۔ گزشتہ سال جون میں ہم نے 217 ملین کی سکالرشپس دی ہیں۔ اور اس میں سے 90 فیصد ایلومنائی کی ڈونیشنز ہیں۔
ایک اور چیز جو بہت اہم ہے وہ ہے انفراسٹرکچر کا بنانا۔ اس وقت جس عمارت میں ہم بیٹھے ہیں اس میں بہت سارے حصے تقریباً 50 سال پرانے ہیں۔ اس کے اندر آپ جتنی بھی کوشش کر لیں اس کو بہتر کرنے کے لیے وہ اب پرانے ہو چکے ہیں۔ اب وہ نئی کی طرح نہیں ہو سکتی۔ ایلومنائی کی مدد سے ہم نے عمارتوں کو بھی بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کلاس کے ماحول کو بہتر سے بہتر کرنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کو سکھایا جائے کہ جب آپ یہ ادارہ چھوڑ کے جاؤ تو آپ نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے سینڈیکیٹ کو بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ہم نے بہت سارے انٹرنشپ پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ جو کہ کامیاب نہیں ہو سکا کرونا کی نظر ہو گیا۔
امریکہ میں کارپوریٹ ایجوکیشن کا ایک سسٹم ہے۔ جس میں دو سال آپ نے پڑھنا ہوتا ہے اور ایک سال آپ نے انڈسٹری میں کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا سسٹم ہے ۔ اس کو ہم یہاں پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یونیورسٹیاں کچھ بھی کر لیں وہ تجربہ نہیں دے سکتی ہیں ۔ انٹرنشپ پروگرامز بھی اتنے اثر انداز نہیں ہوتے۔ کیونکہ اس میں جو بھی انٹرنشپ کرتا ہے اس کو مکمل طور پہ تجربہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس دفعہ ہم نے بہت سارے صنعت کاروں سے یہ معاہدے کیے ہیں کہ جو بھی انٹرنشپ کے لیے لڑکے لیے جاتے ہیں۔ اب وہ چار سال کے لیے لیں گے تا کہ چار سال ایک ہی جگہ پر کام کر سکیں۔ اب انٹرنشپ کے لیے انہیں تو کوئی بھی طالب علم مل سکتا ہے لیکن ہمیں یہ فائدہ ہوگا کہ ہمارا طالب علم جب چار سال کے لیے ان کے ساتھ منسلک ہوگا تو وہ وہاں سے بزنس کرنا سیکھے گا۔ بزنس کو مینج کرنا سیکھے گا۔ وہاں پہ دباؤ میں کام کرنا سیکھے گا۔ ہم نے سٹاف کے حوالے سے بھی کچھ پروگرام شروع کیے ہیں۔ تین مہینے کے لیے ہم نے اپنے سٹاف کو انڈسٹری میں بھیجا ۔ ہم نے یہ اجازت دی کہ تین مہینے کے لیے آپ انڈسٹری میں جاؤ اور وہاں پہ کام کرو۔ اس حوالے سے میری خواہش ہے کہ کچھ اس طرح سے ہو جائے کہ جب ہم کسی کو نوکری پہ رکھ رہے ہوں ۔ تواس کے ساتھ یہ ہم ضروری قرار دیں کہ وہ تین مہینے یا کچھ عرصہ انڈسٹری میں جا کے وقت گزاریں۔
ڈاکٹر علی ساجد : اس کے حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ لاہور میں جنرل اکرم وائس چانسلر تھے۔ مجھے یاد ہے جب سکول آف بزنس میں، میں ان کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ انہوں نے یہ بات لازمی قرار دی تھی کہ ہر لیکچرار دو مہینے کے لیے پروفیشنل ٹریننگ حاصل کرے گا۔ ان دو مہینوں میں ہم ان کو کوئی تعلیمی سلیبس نہیں پڑھاتے تھے ہم ان کو لیڈرشپ سکھاتے تھے ہم ان کو اخلاقیات سمجھاتے تھے ہم لوگوں کے ساتھ کیسے منسلک ہونا ہے یہ سکھاتے تھے مسائل کو کیسے حل کرنا یہ سکھاتے تھے۔ یہ دو مہینے کی ٹریننگ تھی اور لاہور کے قابل ترین لوگ آتے تھے ٹریننگ دینے کے لیے۔ تو ڈاکٹر صاحب کیا آپ نے اس طرح کی کوئی چیز سوچی ہے؟
ڈاکٹر سروش لودھی: معیار کو برقرار رکھنے کے لیے آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ ٹریننگ بہت ہی ضروری ہے۔ اب ٹریننگ کے اس میں دو مراحل ہیں ایک مرحلہ یہ ہے کہ آپ نے بہت ساری معاشرے سے جڑی ہوئی چیزیں سیکھنی ہیں اور دوسرا پہلو اور مرحلہ یہ ہے کہ آپ نے یہ سیکھنا ہے کہ چیزوں کو مینج کیسے کرنا ہے۔ اداروں کے اندر کتنے ڈیپارٹمنٹس ہوتے ہیں اور ہر ڈیپارٹمنٹ کا کیا کام ہے اور ہر ڈیپارٹمنٹ دوسرے ڈیپارٹمنٹ سے کس طرح سے الگ ہے اور منسلک بھی ہے۔ اس طرح کی ٹریننگز ہم کروا رہے ہیں لیکن اس سرٹیفکیشن ہم نے نہیں کروائی اس حوالے سے۔ ڈاکٹر صاحب آپ ٹریننگ کو بہتر سمجھتے ہیں میں نے دیکھا ہے ٹریننگ میں ایک مسئلہ ہے کہ ٹریننگ کے اثرات کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا۔ میرے خیال میں لوگ ٹریننگ لیتے ہیں ان سے اثر ضرور لیتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد وہ بھول جاتے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ آپ کو بار بار ٹریننگ کرواتے رہنا چاہیے۔ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بار بار ٹریننگ کرواتے رہنا نہایت ہی ضروری ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ بتایا کہ این ای ڈی یونیورسٹی میں زیادہ تر نچلے طبقے کے لوگ زیادہ آئے ہیں۔ یہ ہماری ہے بہت ہی حوصلہ افزا خبر ہے. یو ای ٹی لاہور میں بھی یہی ماحول دیکھا گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر سروش لودھی: بجا ہے کہ ہم ایک انجینئرنگ انسٹیٹیوٹ چلا رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک نام بھی ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے گریجویٹ کے پاس مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے حوالے سے میں نے دیکھا ہے کہ ایسے شعبے ایسے انسٹیٹیوٹ جہاں پہ آپ کو معاشی طور پہ مضبوط ہونے کے چانسز زیادہ ہوں تو لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور لوگ آتے ہیں۔ اس کے حوالے سے پھر جو نچلے طبقے کے لوگ ہیں وہ اس میں زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ میں اپنے سٹاف سے بعض اوقات کہتا ہوں کہ جتنی بھی سرکاری یونیورسٹیز ہیں جس طرح کے یو ای ٹی لاہور ہے این ای ڈی ہے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ہے اور اسی طرح کے اور ان کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ انہوں نے ملک کی معیشت میں کتنا حصہ ادا کیا ہے اپنا؟ انہوں نے بے پناہ خدمات کی ہے اس حوالے سے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر جتنے بھی طالب علم آپ ہیں وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ ایسے طالب علم ہوتے ہیں اگر انہیں ملک کے اندر مواقع ملتے ہیں تو یہ ملک کے اندر کام کرتے ہیں اور ملک کے باہر بھی انہیں مواقع ملتے ہیں تو وہ کمال کر دیتے ہیں۔ یہ تو اب سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ جی پاکستان سے قابل لوگ باہر جا رہے ہیں لیکن جب سے ہم این ای ڈی یونیورسٹی میں ائیں تو ہمیں تو یہی نظر ارہا ہے کہ جتنے بھی قابل لوگ ہیں وہ باہر ہی چلے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے یہاں سے گریجویشن کیا تو 220 میں سے 200 لوگ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ اور ان میں سے صرف چار یا پانچ لوگ واپس آئے اور مجھے یاد ہے کہ باقی سارے کے سارے ملک سے باہر ہیں۔ جب آپ کو بہترین معاش اور جاب کی سیفٹی ملتی ہے تو اٹومیٹکلی لوگ وہاں پہ چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر علی ساجد: میرے خیال میں اس معاملے کی ایک اور بھی وجہ ہے۔ آج کل درمیانے طبقے کے لوگ اور اونچے درجے کے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری یونیورسٹیز میں نہیں بھیجتے۔ وہ اپنے بچوں کو او لیول اور اے لیول کرواتے ہیں باقی یہ کام نہیں کر پاتے کیونکہ یہ مرحلہ بہت مشکل ہوتے ہیں ان کے لیے۔ اس کے بعد جو اونچے طبقے کے لوگ ہیں او لیول اے لیول کرنے کے بعد سیدھا ملک سے باہر چلے جاتے ہیں امریکہ کینیڈا اور یورپ چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سروش لودھی: ڈاکٹر صاحب آپ جو بھی کہہ رہے ہیں میرے خیال میں وہ بالکل درست ہیں۔ لیکن ایسے ادارے جو اعلی طبقے کے لیے کام کر رہے ہوں ان کو بنانا بہت اسان ہوتا ہے۔ لیکن بڑے درجے کے لوگوں کے لیے ادارے بنانے کا ایک مسئلہ ہے کہ یہ ادارے بہت بڑے پیمانے پہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتے۔ اور ایسے اداروں سے پھر ایک معاشرے میں فرق پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس کو آپ ایسے دیکھیں کہ اگر آپ کہیں کہ یو ای ٹی لاہور اور این ای ڈی یونیورسٹی لمز کا مقابلہ کر سکے تو وہ نہیں کر پائے گی۔ ہماری این ای ڈی یونیورسٹی میں جو ایک گریجویٹ کے اوپر سالانہ خرچہ اتا ہے وہ 3 لاکھ 25 ہزار روپے۔ اس رقم کا وہ 28 فیصد اپنی فیس جمع کرواتا ہے۔ باقی 72 فیصد اس کا خرچہ گورنمنٹ اٹھاتی ہے۔ اور اس میں بھی جو گورنمنٹ اف پاکستان کا حصہ ہے وہ 27 فیصد ہے۔ اور گورنمنٹ اف سندھ کا جتنا حصہ ہے وہ 30 فیصد ہوتا ہے۔ اور اس میں جو 20 فیصد ہے وہ این ای ڈی یونیورسٹی اپنی طرف سے دیتی ہے۔ ہمارے طالب علم کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے خرچے میں سے 72 فیصد گورنمنٹ کسی نہ کسی طریقے سے پورا کر رہی ہے۔ جب آپ کسی طالب علم سے کہیں کہ پرائیویٹ یونیورسٹی میں آپ کو سالانہچ لاکھ سے پانچ لاکھ فیس جمع کروانی ہے تو یہ ہر طالب علم کی بس کی بات ہے ہی نہیں۔ یہ بہت ہی محدود معاشرے کے لوگ طبقے کے لوگ یہ فیس دے سکتے ہیں۔ ہے اس طریقے سے معاشرے میں ایک فرق پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی ہے یا کراچی یونیورسٹی ہے ان میں 50 50 ہزار طالب علم پڑھ رہے ہوتے ہیں اور پرائیویٹ یونیورسٹیز یہ کام نہیں کر سکتے اتنی تعداد کو نہیں پڑھا سکتے۔ اور اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اتنے لوگ ہیں ہی نہیں جو اتنی فیس ادا کر سکیں پرائیویٹ یونیورسٹیز کی۔ اور اکثر ان لوگوں کی ہے جو انہی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز سے بڑھ کے گئے ہیں اور وہی ملک چلا رہے ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیز کا معیار بہت اچھا ہے اور ایسے ہی دو چار اور یونیورسٹیز ہونی بھی چاہیے لیکن یہ پورے ملک کو نہیں چلا سکتے ملک کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر علی ساجد: پرائیویٹ یونیورسٹیز کے بارے میں ایک چیز کہی جاتی ہے کہ ان کا اہم کردار ہے معیار کو برقرار رکھنے کا۔ یہ پرسنلٹی کے اوپر کام کرتے ہیں لیڈرشپ کے اوپر کام کرتے ہیں مینجمنٹ کے اوپر کام کرتے ہیں اور نئے شعبے متعارف کرواتے ہیں۔ ایسی یونیورسٹیز کا بچہ اعتماد میں ہوتا ہے۔ میں نے خود 25 سال سرکاری یونیورسٹیز میں کام کیا ہے ان کے مسائل میں سمجھتا ہوں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا سرکاری یونیورسٹیز میں ایسا ممکن ہے؟
ڈاکٹر سروش لودی صاحب: ڈاکٹر صاحب سرکاری یونیورسٹی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اور مجھے لگتا ہے ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو پرائیویٹ یونیورسٹیز میں پڑھ رہا ہے طالب علم اس کے پاس معلومات زیادہ ہیں اس کے پاس مواقع زیادہ ہیں اس کے پاس اعتماد زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے طالب علم کے پاس بہت سارے معیار پہلے سے موجود ہوتے ہیں اس کو سیکھنا نہیں پڑتا اس کو گھر سے یہ چیز ملی ہوتی ہے۔ اب جب کہ یہ چیز سرکاری یونیورسٹیز میں پڑھنے والے بچوں میں نہیں دیکھی ہوتی ان کو سیکھنا پڑتا ہے اور انہیں پوری زندگی کا ایک حصہ لگانا پڑتا ہے۔ شخصیت بنانے کے لیے جو لہجے کا کردار ہے وہ لہجہ بنانے کے لیے ہمارے طالب علموں کو مواقع نہیں ملتے۔
سرکاری یونیورسٹیز میں پڑھنے والے طالب علم پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم جیسے نہیں ہوتے ان کے پاس مواقع بھی اتر نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود ایک تو وہ ذہین ہوتے ہیں دوسرا وہ محنتی ہوتے ہیں وہ اپنے اس کمزوری کو طاقت میں تبدیل کر لیتے ہیں اس کی خامی کو کور کر لیتے ہیں۔ میں اگر انجینئرنگ کے شعبے میں واپس آؤں تو اس میں شخصیت کو نکھارنے والا سلیبس ہے ہی نہیں۔ اس میں بنیادی صلاحیتیں ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن ابھی تک نہیں ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جب ہم سرکاری یونیورسٹیز میں اپنے انجینئر کو کچھ سکھاتے ہیں اس سے اچھا کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اب اس میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ چار سال میں جب ایک انجینئر کچھ سیکھتا ہے تو کیا وہ ائندہ 40 سالوں تک کے لیے کافی ہے تو اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ ٹریننگ کا مسلسل ہونا بہت ضروری ہے۔ کوئی بھی ادارہ ہے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ملازمین کے اوپر خرچہ کر کے ان کی ٹریننگز کرواتا رہے۔ ہم تعلیمی اداروں میں کریکلم کو ریگولیٹری باڈیز کے ساتھ بینچ مارک کرتے ہیں حالانکہ ایک انجینئر کو چار سال ایکاڈیمکس میں رہنا پڑتا ہے اور باقی 40 سال اس کو انڈسٹری میں رہنا پڑتا ہے اور 40 سال کے لیے کوئی بھی بینچ مارک نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو دیکھا جانا چاہیے۔ ایک انجینئر چار سے پانچ سال فیلڈ میں کام کرتا ہے اس کے بعد وہ مینیجر بن جاتا ہے۔ اب جب وہ ایک مینیجر بن چکا ہے تو اس سے کام لینے کے لیے انڈسٹری کی ذمہ داری ہے کہ ان کی اس لیول کی ٹریننگ کروائے۔ ہمارے ہاں انجینئر ز کا سب سے بڑا ایمپلائر گورنمنٹ ہے۔ گورنمنٹ کے اداروں میں انجینئر ز کے لیے ریگولر ٹری میکنزم کیا ہے مجھے تو کوئی نظر نہیں ایا۔ کیا ہم نے کسی سرکاری ادارے سے پوچھا ہے کہ آپ کے پاس جو انجینئر کام کر رہا ہے اس کے پاس متعلقہ لائسنس ہیں بھی یا نہیں۔ ہمارا انجینئر ایک سال کی ممبر شپ لینے کے بعد ایس ڈی او لگ جاتا ہے اس کے بعد اس کو وہ ممبرشپ دوبارہ بحال کروانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ہمیں سرکاری اداروں میں ریگولیٹری میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پچھلا سلسلہ سارا ختم کر دیں لیکن اس میں مزید کچھ بہتری سے بہتری کی کوشش کرتے رہیں۔
میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں پاکستان میں جو ایک کامیاب سرکاری ادارہ ہے وہ ہے پاکستان ارمی باقیوں کے بارے میں میں منفی رائے نہیں رکھتا لیکن اس وقت جو کامیاب نظر اتا ہے منظم وہ پاکستان ارمی ہے۔ اور ان کی کامیابی کی وجہ کیا ہے کہ وہ صحیح بندے کا صحیح جگہ پہ انتخاب کرتے ہیں۔ جب وہ صحیح بندے کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ اس کی ٹریننگ کرتے ہیں اور وہ ٹریننگ ختم نہیں ہوتی مسلسل جاری رہتی ہے۔ اور نہ صرف وہ ان کی ٹریننگ کرتے ہیں وہ ان کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ ہمارے باقی سٹرکچر میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہیں۔ پہلی بات یہ جب کسی بندے کا ہم نے انتخاب کرنا ہو تو سفارش استعمال کرتے ہیں۔ اور جب ہم اس کا انتخاب کر لیتے ہیں تو اس کے کچھ سکھاتے نہیں ہیں بس کام میں ڈال لیتے ہیں۔اور اس کے بعد صحیح غلط وہ جو بھی کرتا رہے ہم اس کے رحم و کرم پہ چیزیں چھوڑ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب ہر پانچ سال بعد کیا آپ فیکلٹی ڈیویلپمنٹ کا کوئی میکنزم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر سروش لودی:
اگر ہم کسی بھی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے ہم پروفیشن کا بھی کوئی میکنزم بنا لیں تو ہمیں وہ نتائج مل جائیں گے جو ہم دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ گڈ کوالٹی کیپیٹل چار سال میں نہیں ا سکتا۔ آپ نے اس کے اوپر مسلسل انویسٹمنٹ کرتے رہنا ہے۔ میں دو ممالک کی ہمیشہ مثال دیا کرتا ہوں ایک چائنہ اور دوسرا سنگاپور چائنہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ابادی کے لحاظ سے۔ اور سنگاپور دنیا کا سب سے چھوٹا شہر ہے ابادی کے لحاظ سے۔ لیکن ان دونوں ممالک میں ایک چیز مشترک ہے۔ ان دونوں کی معیشت مضبوط ہے۔ ان دونوں کی معیشت مضبوط کیوں ہے؟ کیونکہ ان کا ہیومن کوالٹی کیپیٹل بہت اچھا ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی میکنزم ایسا ہے کہ ہم گڈ کوالٹی کیپیٹل کرییٹ کریں ایسا نہیں لگتا مجھے۔ یہ میکنزم ہم نے خود بنانا ہے کوئی ہماری اس میں ا کر مدد نہیں کر سکتا ہم نے اپنے بل بوتے پہ یہ سب کچھ بنانا ہے۔ میں خاندانوں کی مثال نہیں دیتا ہوں کہ کسی بھی خاندان میں جب کوئی شخص پڑھ لکھ جاتا ہے تو وہ اس خاندان کو بہتر کر دیتا ہے جس ادارے میں فائنانس کا میکنزم بہت اچھا ہے وہ ادارہ ترقی کرتا ہے اور جس ملک میں گڈ کوالٹی کیپیٹل ہوتا ہے وہ ادارہ معاشی طور پہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ انسان کے اوپر انویسٹمنٹ کریں اچھے اور قابل اور محنتی لوگ پیدا کریں اور یہ ایسا کیپیٹل ہے جس کے فائدے کی کوئی لمٹ ہی نہیں ہے ہم اس کے فائدے کو پیمائش میں لا ہی نہیں سکتے۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ نے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی پارٹنرشپ کا ذکر کیا ہے تو یہ پاکستان کے مختلف صوبوں میں کیسے عمل درامد ہو رہا ہے اس پر؟
میں کینیڈا میں گیا کینیڈا بہت بڑا ملک ہے جو کہ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے واٹر شپ سے کام کر رہا ہے.
ڈاکٹر سروش لودی: میرے مطابق سندھ کے اندر جو پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی پارٹنر شپ ہے وہ وہ ہمارے باقی ملک کے حصوں سے بہت زیادہ ہیں۔ روڈ کے بڑے پروجیکٹ کنسٹرکشن کے پروجیکٹس پانی کے بڑے بڑے پروجیکٹس وہ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کنٹریکٹ سے ہو رہے ہیں۔ اس سے بدعنوانی میں بھی کمی اتی ہے کیونکہ پرائیویٹ سیکٹر دیکھے گا اگر کسی ادارے میں کسی ا کام میں کوئی فائدہ ہے اس میں بہتری ہے تو وہ انویسٹ کرتی ہے ایسے وہ انویسٹ نہیں کرتی تو وہ پھر ایک سلسلہ چل جاتا ہے بہتری کا۔ اور اس میں خود بخود احتسابی کا عمل موجود ہوتا ہے۔ گورنمنٹ پاس زمین ہے اور وہ پرائیویٹ سیکٹر کو کہتی ہے کہ یہ زمین ہے اس پہ روڈ بناؤ اور اگلے 25 سال تک اس سے ٹول ٹیکس کلیکٹ کرو آپ تو اس سے پیسے میں بہاؤ انا شروع ہو جاتا ہے۔ فیڈرل لیول پر بھی یہ کام ہو رہا ہے بہت سارے صوبوں میں بھی اس پر عمل درامد ہے ابھی تھوڑا سا وقت لگے گا لیکن آغاز ہو چکا ہے۔ سندھ میں تو مجھے یاد ہے 10 12 سال سے تو ہے۔ سندھ پہ عمل درامد مراد علی شاہ صاحب کی وجہ سے ہوا وہ میرے کلاس فیلو بھی ہیں۔ ہم بہت اچھے دوست بھی ہیں اور فائنلی سال آپ پروجیکٹ کہ ہم پارٹنر بھی تھے۔ مجھے پرائیویٹ پبلک واٹر شپ بورڈ کا ممبر ہونے کا فائدہ حاصل یہ ہوا کہ مجھے چیزیں سمجھ میں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ یونیورسٹی میں بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے کہ اس کے ٹیلنٹ کو کمرشلائز کیا جائے اس کو مارکیٹ کیا جائے۔ انسانی دماغ اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا رجحان پاکستان میں نہیں ہے۔ کویت کویت کی طرف سے ہم سے رابطہ ہوا کچھ پروجیکٹس کے اوپر کام کرنے کے لیے ہم نے گورنمنٹ اف پاکستان گورنمنٹ اف سندھ سے اس کے حوالے سے ڈسکشن کیا اور پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے ہمیں بلین ڈالرز کا فائدہ ہوا اس میں ہمارے پیسے نہیں لگے لیکن ایک بزنس کا طریقہ کار تھا جس میں انویسٹمنٹ ہوتی گئی اور ہماری انٹلیکچول پراپرٹی بڑھتی چلی گئی۔
ہمارے ملک میں ایسا سسٹم موجود نہیں ہے کہ ہم Intellectual Property کو ٹیکنالوجی پارک تک کیسے پہنچائیں۔ کوئی ہاتھ سے پکڑ کر نہین لے جائے گا۔ ہم نے خود اس پر کام کرنا ہے اور سسٹم بنانا ہے۔ اس کے حوالے سے ہمیں لائسنسنگ میکانزم بنا نا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم نے ریگولیٹر باڈی بنائی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم یہ فیڈرل گورنمنٹ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور کروائیں۔ Intellectual Property کے لیے ہم نے ایک تو ٹیکنالوجی پارک بنایا پرائیویٹ اینڈ پبلک پارٹر شپ کی مدد سے ۔ دوسری طرف نے ایک ریگو لیٹری باڈی بنائی سہولت کیے لیے۔یہ بہت مناسب آئیڈیا ہے ۔ اس سے نا صرف یونیورسٹی ترقی کرے بلکہ ملک ترقی کرے گا۔
ڈاکٹر علی ساجد : آپ نے چار پانچ سال پاکستان انجینیرنگ کونسل میں بہت متحرک کردار ادا کیا۔ آپ نے نئے نئے آئیڈیاز دئیے۔ کیا آپ کے خٰال میں پاکستان انجینرنگ کونسل کو مزید فعال بنا یا جا سکتا ہے؟ آپ نے جو آئیڈیا دیا PPP یعنی پرایئویٹ پبلک پارٹر شب کا کیا اس میں پاکستان انجینیرنگ کونسل کوئی کردار ادا کر سکتی ہے؟
ڈاکٹر سروش لودھی: میرا خیال ہے جتنا پاکستان انجینیرنگ کونسل کردار ادا کر سکتی ہے اتنا کوئی اور ادارہ کام نہیں کر سکتا۔ کسی بھی سسٹم سے زیادہ اس میں موجود لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ ہوتاہے۔ پاکستان انجینیرنگ کونسل کردار نئے پالیسیز دینا بھی ہے۔ اس کا کام گورنمنٹ کو ہدایات دینا ہے۔ ان کام ہے کہ ایسا منصوبہ دیں جو گورنمنٹ کے لیے بہت آسان ہو لاگو کرنا۔ اور اس فریم ورک سے فائدہ بھی حاصل ہو۔ گورنمنٹ کے لیے قرضہ لے کر کام کرنے سے بہت بہتر ہے کہ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شب کے ذریعے کام کرے۔ قرضہ لے کر آپ ایک کام کر سکتے ہیں لیکن PPP کی مدد سے آپ سو کام کر سکتے ہیں۔ ریگولیٹری باڈیز کا گورنمنٹ سیکٹرز میں یہ کردار ہے کہ اگر کوئی انجینیر متعلہ ٹریننگ نہیں کرتا تو اسکی پر و موشن نہیں ہونی چاہیے۔
رخسانہ زبیری پاکستان ایجینیرنگ کونسل کی چئیر پرسن تھیں۔ انہوں نے واشنگٹن ایکارڈ کا آئیڈیا دیا۔ اس وقت کسی کو سمجھ میں نہیں ۔ لیکن بعد میں PEC نے واشنگٹن ایکارڈ پر دستخط کیے اور سے بہت فائدہ ہوا جو آج بھی نظر آتا ہے۔ اس سے معیار بہتر ہوا ہے اور بین الاقوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ واشنگٹن کا ایکارڈ کا فائدہ ہماری NED یونیورسٹی کے طلباء کو بہت ہوا۔ ایک انٹر نیشنل انجینرنگ الائنس ہے جو عام انجینیر کو معلوم نہین۔ اس کے تحت ہم نے 2018 ء میں ایک ایکارڈ پر دستخط کیے تھے۔ اس کے تحت PEC انٹرنیشنل پروفیشنل انجینئر کا لائسنس دی سکتی ہے۔ اگر آپ انجینئر ہیں اور آپ کے پاس یہ لائسنس ہے تو آپ 21 مختلف ممالک میں بغیر کوئی ٹیسٹ پاس کے بطور پروفیشنل انجینئر جا سکتے ہیں۔ اس میں تمام ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ میرا نہیں خیال اس وقت پاکستان میں کوئی ایک بھی پروفشنل انجینیر ہوا ہو۔ اس کو آگے بڑھنا چاہیے اس سے بہت فائدے حاصل ہوں گے۔
ڈاکٹر علی ساجد : معیاری تعلیم کو این ای ڈی یونیورسٹی کیسے لائے ہیں جس کی وجہ اس یونیورسٹی کا نام ہے ؟
پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی : کچھ چیزیں تو ہمیں وراثت میں ملتی ہیں۔ اس ادارے کا ہمیشہ سے ایک نام رہا ہے۔ ہماری سب سے بڑی طاقت ہمارا طالبعلم ہے۔ معیاری طالبعلم ہمارا بڑا سر مایہ ہے۔ 1300 درخواستیں آئیں اس سال اور ہم صرف 3000 کو داخلہ دیں گے۔ اس طرح معیاری طالبعلم خود ہی آ جاتے ہیں۔ آ ج ہمیں وقت پر طالبعلم کو گریجوایٹ کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے دور میں 5 یا 6 سال لگ جاتے تھے۔ ہماری دور میں یہ بھی تھا کہ انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد انجینیرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے ایک سال انتظار کرنا پڑتا تھا۔
1977 میں این ای ڈی یونیورسٹی نے ایک صاحب کو آرٹی فیشل اینٹیلی جنس پڑھنے کے لیے امریکہ بھیجا۔ بد قسمتی سے وہ صاحب پلٹ کر واپس نہیں آئے۔ 2018ء میں اس نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ میں معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اب مجھے بتائیں میری کیا سزا ہے۔ مجھے اچھا لگا کہ ایک شخص کو دیر ہی سہی احساس تو ہوا ۔ میں نے بھی جائز جرمانہ لگا یا جو کہ تقریباً ڈیڑھ ملین بنتا تھا ۔ اس صاحب وہ جرمانہ ایک ہی قسط میں جمع کروا دیا۔ ان پیسے سے میں نے 5 لوگوں کو ہارورڈ یونیورسٹی سے آن لائن ایجوکیشن سسٹم سے ٹرنینگ کروائی۔ اس ٹریننگ کے بعد میں ہر بندے سے میں مزید پانچ پانچ افراد کی ٹریننگ کروائی ۔ جس دن انکی ٹریننگ ختم ہوئی اس کے اگلے ہفتے COVID آگیا۔ اور اس ٹرینگ سے بہت فائدہ ہوا او ر ہم اپنا آن لائن کلاس سسٹم بنوا لیا۔ اس سے ہمارے طلباء کا وقت ضائع نہیں ہوا۔
ڈاکٹر علی ساجد : کیا آپ نے آرٹی فیشنل انٹیلی جنس کے حوالے سے کوئی کام کیا ہے ؟
ڈاکٹر سروش لودھی : جی بالکل ! ہم نے آرٹی فیشنل انٹیلی جنس پر بہت سارے نئے پرو گرام شروع کروائے ہیں۔ اس سے پہلے میں اپنے سٹاف کے ممبرز کی ٹریننگ کروائی ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد : میرا آپ سے آخری سوال ہے کہ جدیت تعلیم کا پاکستان کے مستقبل حوالے کیا نقطہ نظر ہے ؟
ڈاکٹر سروش لودھی : پاکستان کا مستقبل تو خراب ہو نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں نئے جوان بچے بچیوں کو دیکھتا ہوں تو یہ مجھے مجھ سے بہت بہتر نظر آتے ہیں ۔اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم انکو صحیح طرح سے ٹرین کریں۔ اور انکو ان غلطیوں کا بتائیں جو ہم نے کی ہیں تاکہ ان غلطیوں پر وقت بر باد نہ ہو۔ ان کے اندر اخلاقیات اور نظم و ضبط پیدا کریں۔
ڈاکٹر علی ساجد : کیمپس گورننس کے انگریزی طرز کو کیا بہتر کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں ؟ معذرت کے ساتھ یہ میرا آخری سوال رہ گیا تھا۔
ڈاکٹر سروش لودھی: اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ مثال کے طور ہماری یونیورسٹی میں جو جنتا پرانا ہوتا ہے ہم اسے ڈین بنا دیتے ہیں اور بہت سے سارے ڈین بن جاتے ہیں اور وہ بھی صرف ایک ہی طرح کے کام کیے لیے۔ اس کو بہتر ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر علی ساجد : ڈاکٹر سروش لودھی صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ہماری آپ سے محبت آج مزید بڑھ گئی۔ آپ سے مل کر بہت کچھ نیا ملا۔ میری دعا ہے کہ پاکستان کو بہت سارے سروش لودھی ملیں تاکہ پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے۔ آپ کے جذبے اور ہمت کو سلام۔اللہ آپ کو صحت اور لمبی عمر عطا فرمائے۔ بہت شکریہ
Inspirational....
ReplyDelete