انجینئر جاوید سلیم قریشی کے ساتھ ایک نشست
السلام علیکم میں ڈاکٹر علی ساجد ہوں۔ ہم نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے نوجوانوں میں نا امیدی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ نوجوانوں میں اور اگلی نسل میں امید کی کرن پیدا کرنے کے لیے اور جذبہ اور ہمت اور موٹیویشن پیدا کرنے کے لیے ہم نے ایک سلسلہ کا آغاز کیا ہے۔ ہم نے چیدہ چیدہ پروفیشنلز اور کامیاب لوگوں سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تاکہ ہم نوجوانوں کو یہ امید اور جذبہ دے سکیں ۔
![]() |
ڈاکٹر علی ساجد |
انہیں یہ بتا سکیں کہ یہ لوگ کامیاب کیسے ہوئے؟ کون سی مشکلات سے گزرے؟ کن حالات سے گزرے ؟اور کامیابی انہیں کس راستے سے ملی؟۔ ہمارے ملک پاکستان میں یہ عمومی تصور پایا جاتا ہے کہ ہر کام سفارش سے ہوتا ہے ۔ہر کامیابی سفارش سے ملتی ہے۔ ہم اس تصور کو توڑنا چاہتے ہیں۔ہم یہ بتائیں گے کہ کامیابی کے لیے کتنے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے مل چکے ہیں اور ابھی بھی مل رہے ہیں۔ جنہوں نے بالکل فرش سے آپ نے کیریئر کا آغاز کیا۔ محنت، مشقت، دیانت داری اور ایمانداری سے آپ نا ایک مقام حاصل کیا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس وقت میں انجینیئر جاوید قریشی صاحب کے دفتر میں بیٹھا ہوں اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ جناب انجینیئر قریشی صاحب کی بہت ساری خصوصیات ہیں۔ انسان دوست اور محنتی ہیں۔ امانت دار ہیں ایماندار ہیں اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔ انجینیئر جاوید سلیم قریشی صاحب یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہمارے ساتھ تھے اور ہمارے سینیئر تھے۔ میں جناب جاوید سلیم قریشی صاحب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
جاوید سلیم قریشی: ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ ۔
ڈاکٹر علی ساجد: مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب آپ پاکستان انجینئر کونسل کے چیئرمین تھے اس وقت آپ بہت صبح سویرے اٹھتے تھے اور سٹاف کے پہنچنے سے پہلے آپ دفتر آئے ہوتے تھے۔ رات دیر تک آپ اپنے دفتر میں ہی رہتے تھے۔ آپ کی دن رات کی محنت سے پاکستان کے بہت سارے انجینیئرز کو بہت ساری سہولیات اور فائدے حاصل ہوئے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ انجینئرز کے لیے ہمارا فنڈ50 کروڑ تھا اور آپ اس کو 10 ارب تک لے گئے۔ اور مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ آپ نے بہت سارے کام سرکاری خرچے پر نہیں کیے آپ نے آپ نے ذاتی خرچے سے کیے۔ آپ نے اخلاقیات کی ایسی مثال قائم کی ہے جس پر آج بھی ہمیں فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ آپ چھ سال تک پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین رہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے حوالے سے ہم بعد میں بحث کریں گے پہلے ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں کہ آپ نے زندگی کا آغاز کیسے کیا اور کن مشکل حالات سے کیا؟
جاوید سلیم قریشی: ڈاکٹر صاحب بہت مہربانی آپ کی میرا اس معاشرے کے ساتھ اور آپ کے ساتھ ایک بہت گہرا تعلق ہے. ڈاکٹر صاحب آپ خود بھی محنت مشقت اور مروت کی ایک بہترین مثال ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کام کرنے والے آدمی کے لیے کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ کام کرنے والے کے لیے مواقع بہت ہیں. میں کہنا چاہوں گا کہ دو چیزیں آپ کے پاس ہونی چاہیے ایک تو جذبہ جنون اور پیشن۔Passion بھی صرف کافی نہیں ہے. اس کے ساتھ ساتھ آپ کو عزم بھی چاہیے۔ آپ کے پاس ارادہ ہونا چاہیے اور اس ارادے پر عمل درآمد کرنے کے لیے جنون ہونا چاہیے پھر آپ کے پاس مواقع ہی مواقع ہیں۔ ان دونوں کا ملاپ ہونا ضروری ہے اور مزے کی بات ان کا تعلق وسائل سے بالکل بھی نہیں ہے۔ آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں آپ کے پاس دفتر نہیں ہے آپ کے پاس دیگر وسائل نہیں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کے پاس بس ارادہ اور جنون ہونا چاہیے آپ کچھ کر گزریں گے۔
اللہ تعالی نے آپ کو ذہن دیا ہے، عقل دی ہے اسی میں سب کچھ ہے۔ میں اللہ کا لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ اس ذات کے آگے جھکنا ہے ۔ اور اس لیے بھی کہ آپ غرور اور تکبر کا شکار نہ ہو جائیں۔ جب آپ اپنے خدا کے آگے تسلیم ہوتے ہیں تو قدرت آپ کو رہنمائی دینا شروع کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب آپ مکمل طور پر اس کے تابع ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ آپ کے معاملات کو آگے چلا ئے ۔ قدرت کا ایک نظام ہے جب قدرت کے نظام سے آپ ٹکراتے ہیں تو پھر آپ بہت مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
نہیں نشیمن تیرا قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
علامہ محمد اقبالؒ صاحب نے جو خودی کا تصور پیش کیا وہ یہی تصور ہے اور یہیں سے انہوں نے خودی کا تصور اخذ کیا۔ تین چیزیں آپ اپنے اندر پیدا کر لیں۔ خدا کے آگے جھکنا ہے ارادہ کرنا ہے اور جنون سے کام کرنا ہے ۔آپ دیکھیں گےچا ہے دنیا کی کوئی بھی طاقت ہے وہ آپ کے سامنے تسلیم ہو جائے گی۔ یہ سب کچھ میں نے اپنی زندگی سے سیکھا ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: آپ نے آپ نے کیریئر کا آغاز کتنے کروڑ روپے سے کیا تھا؟
جاوید سلیم قریشی: ڈاکٹر صاحب کروڑوں سے تو ہم نے آغاز ہی نہیں کیا تھا۔ ہم نے ، آپ نے کیریئر کا آغاز ہزاروں روپے سے کیا تھا اور وہ بھی والد صاحب دیتے تھے۔
ڈاکٹر علی ساجد: واپڈا میں آپ بطور ایکسین تھے۔ آسائش والی جاب چھوڑ کر آپ نے مشکل سفر کا آغاز کیوں کیا ؟ آپ کے پاس پیسے ہونگے ، گاڑیاں ہوں گی گھر ہوگا؟
جاوید سلیم قریشی: ڈاکٹر صاحب بہت مشکل تھا۔ اتنا آسان نہیں تھا ۔ گھر کے خرچے پورے نہیں ہوتے تھے اور بچوں کی فیسیں بھی جمع نہیں ہو پاتی تھیں۔ رزق حلال کرتے تھے اور یہ مشکلات بھی ساتھ تھیں۔ آپ دوسرے راستے سے کام کرتے تو ہمارے پاس بہت مواقع تھے لیکن اطمینان نہیں تھا۔ ہمارے دیگر احباب اور دوست پُر آسائش تھے اور وہ ان سہولیات سے مستفید ہو رہے تھے۔ جب میں واپڈا میں کام کرتا تھا مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میرے اندر ایک طاقت ہے جس سے میں کچھ کر سکتا ہوں۔ لیکن یہاں پہ وہ کام کرنے میں مجھے دشواری محسوس ہوتی تھی۔ میرے ساتھ کام کرنے والے مجھے کہتے تھے کہ آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہو کہ ہر وقت دفتر میں ہر وقت دفتری کام میں مصروف ہو۔ کسی نہ کسی فائل کے ساتھ آپ جڑے ہوئے ہو۔ آپ کو چاہیے کہ آپ دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں آپ بہت سارے دوسرے کام کریں۔ گھر والوں کو وقت دیں اتنا وقت دفتر کو دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنی محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہم کام کرنے والے تھے ہمیں کام کرنا تھا.
بہت محنت کرنے کے بعد یہ محسوس ہوتا تھا کہ جب میں کسی گورنمنٹ کے لیے اتنا کام کر سکتا ہوں تو میں اپنے کام کے لیے کیوں محنت نہ کروں؟ یہ سوچ کر میں نے واپڈا کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ اس دوران میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے کامیاب کر اور ثابت قدم رکھ۔ جب آپ خدا کے آگے تسلیم کرتے ہو کسی کام کا ارادہ کرتے ہو اور جذبے سے کام کرتے ہو تو میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ایک شخص کی عمر 70 سال ہو اور وہ صبح چار بجے سے لے کے 11 بجے تک مسلسل کام کرے اور اسے تھکاوٹ نہ ہو تو آپ کیا سوچیں گے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کام کے دوران آپ کو تھکاوٹ نہ ہو تو آپ جذبے سے کام کریں۔ جب آپ میں جذبہ نہیں ہوگا تو آپ ادھے گھنٹے میں کوئی بھی کام کر کے تھک جائیں گے۔ جب آپ آپ نے ارادے میں خدا کو لے اتے ہو تو پھر پیسہ چھوٹی چیز رہ کے جاتا ہے۔ مجھے پیسوں کے زیادہ خیالات نہیں آتے۔
ڈاکٹر علی ساجد: آپ نے اللہ کے ساتھ لو لگانے کے لیے ذکر اور فکر چاہیے یا اس کے علاوہ بھی کچھ چاہیے ہوتا ہے؟
سلیم جاوید قریشی: اللہ ان کو بھی دیتا ہے جو اس کو نہیں مانتے جو خدا کا ذکر نہیں کرتے۔ جو خدا کا ذکر کرتے ہیں وہ تو ان کے لیے ایک مثبت ہے وہ ان کے لیے انعام ہے۔ لیکن خدا جب کسی کام میں برکت پیدا کرتا ہے تو وہ ذکر کی وجہ سے نہیں کرتا وہ مشرکوں کو بھی دیتا ہے وہ کافروں کو بھی دیتا ہے وہ مسلمانوں کو بھی دیتا ہے بس دینے کی لذت اور ہے ۔ خدا سے لو لگانے کے لیے ضروری ہے خدا کے اگے جھکنا اور دوسرے نمبر پہ آپ کی وجہ سے کسی انسان کو تکلیف نہ ہو فی الحال مسلمانوں کی یہ حالتیں جو قدرت کے بنیادی اصول ہیں ہم اس پر بھی عمل درآمد نہیں کر پاتے۔ بنیادی اصول میں اخلاقیات دوسروں کا احساس شامل ہے۔ اور بنیادی اصولوں میں خدا کے سامنے تسلیم کرنا آپ نی رضا کو سرنڈر کر دینا بہت ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ پیسے کی خاطر مار دھاڑ شروع کر دیں لوگوں کو نقصان پہنچائیں دوسروں کو نقصان پہنچائیں یہ بالکل درست نہیں ہے۔ میں جب بھی کوئی کام کرتا ہوں تو اس میں میں سب سے پہلے پیسہ نہیں سوچتا میں قومی مفاد کو دیکھتا ہوں دوسروں کے فائدوں کو دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ میرے ساتھ جو لوگ منسلک ہیں ان کو اس کام سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ تیسرے نمبر پہ میں دیکھتا ہوں کہ جس کی خاطر ہم کام کر رہے ہیں کسٹمر کی خاطر اس کو کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ ان تین نکات کو مدنظر رکھنے کے بعد پھر میں مزید کچھ نہیں لکھتا کیونکہ لازمی سی بات ہے جب ان کا مفاد مکمل ہو جاتا ہے تو مجھے بھی فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد : کیا میں آپ کی بات سے یہ اخذ کر سکتا ہوں کہ جب آپ کے ارادے قدرت کے قوانین سے تصادم نہیں ہوتے تو قدرت کی برکت کا نزول لازمی حاصل ہوتا ہے؟
جاوید سلیم قریشی: ڈاکٹر صاحب بالکل آپ صحیح فرما رہے ہیں۔
ڈاکٹر علی ساجد: جب آپ نے واپڈا کی ملازمت چھوڑی اس کے بعد آپ کو کن مسائل کا سامنا رہا؟
سلیم جاوید قریشی: میں نے واپڈا کی ملازمت چھوڑی ہی مسائل کی وجہ سے تھی۔ مسائل ہی اتنے تھے کہ واپڈا کی ملازمت سے وہ مسائل حل کی طرف نہیں جا رہے تھے۔ میرے گھر کے خرچے تھے میرے بچے بڑے ہو رہے تھے ان کے تعلیمی اخراجات تھے جو کہ میری واپڈا کی نوکری سے پورے نہیں ہو پا رہے تھے۔ اب دوسرے طریقے سے میں کما نہیں سکتا تھا وہ میرا ضمیر قبول نہیں کرتا تھا تو اس فیصلے میں میں اکیلا تھا۔ اس فیصلے میں کسی کی حمایت نہیں تھی نہ میرے دوستوں کی حمایت حاصل تھی مجھے نہ گھر والوں کی نہ ایون کہ میری بیوی بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھی۔ اس سب کے باوجود مجھے یقین تھا کہ انشاءاللہ میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ یہ فیصلہ میں نے کیا تھا 1989 ءکو۔ میں نے دیکھا ہے کہ اصول کے دائرے میں ہر شخص سب کچھ کر سکتا ہے ۔
میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کے حوالے سے ایک مختصر سا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اس کا سلسلہ تقریبا 1976 سے ہوا اور میں 2015ء میں اس میں اس کا چیئرمین بنا۔ اس کے آغاز کے دور میں آپ بھی اس کے گواہ ہیں کہ انجینیئرز کو صرف یہ فائدہ حاصل تھا کہ وہ پی سی سے رجسٹرڈ ہوگا تبھی وہ آپ نے ساتھ انجینیئر کہلوا سکے گا وگرنہ نہیں ۔ ہمارا یہ نعرہ تھا کہ انجینیئر کو آزاد کرو اس سسٹم کے پیچیدگیوں سے بچاؤ۔جب 2015 ءمیں میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا چیئرمین بنا تو ہم نے یہ کوشش کی۔ انجینیئر کی آزادی سے مراد سسٹم کی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھنا۔ مجھے یاد ہے کہ 1973 ءمیں جب میں نے یو ای ٹی میں داخلہ لیا تو اس وقت میں نے بیڈن روڈ سے ایک بیج بنوایا یونیورسٹی کا اور بیج لگا لیا کیونکہ اس سے معاشرے میں ہمارا وقار بڑھتا تھا ہمارا ایک امیج بنتا تھا۔ اب اس کے بعد صورتحال یہ تھی ایک وقت ایسا بھی ایا لوگ آپ نے نام کے ساتھ جنیر نہیں لگواتے تھے۔
ہمارا اصل مقصد تھا کہ انجینیئر کو وہ مقام دیں گے کہ معاشرہ ان کی عزت کرے۔ اور انجینیئر کے لفظ کو اہمیت حاصل ہو۔ اور ہمیں یہ جو موقع ملا اس دوران ہم نے یہ بات منوائی۔ آپ یہ بات محسوس کریں گے کہ آج سوشل میڈیا کے اوپر لوگ انجینیئر کا لفظ آپ نے ساتھ لگانا فخر محسوس کرتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے کچھ اقدامات کیے کریکلم کو بہتر کیا جو کہ پچھلے 70 سال سے ہوا ہی نہیں۔ جہاں جہاں اس کی ضرورت تھی ہم نے یہ اہمیت واضح کی کہ انجینیئرز کی موجودگی کتنا اہم ہے۔ بیوروکریٹس کا یہ کام تھا کہ وہ سارا کام انجینیئر سے کرواتے تھے اور نام آپ نا استعمال کرتے تھے۔ اور پھر ہم نے یہ بتایا کہ یہ کام انجینیئرز کا تھا اور یہ انجینیئرز ہی کر رہے ہیں۔ ابھی انجینیئر سے آپ نے کلر کا کام لیا ہے آپ جب اس کو اس کی اصلی سیٹ پر بٹھائیں گے تو وہ اس سے بھی بہت اچھا رزلٹ دے گا۔ ہم نے انجینیئر کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہم نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی سے اس بات کو منوایا کہ جو انجینیئر کا مقام ہے جو اس کی سیٹ ہے وہ اسی انجینیئر کو ملنی چاہیے اس کی جگہ کسی اور بیوروکریٹ کو نہیں بٹھانا چاہیے۔ اور میرے نزدیک یہ ہیں انجینیئر کی آزادی ہے۔ جب کسی سیکٹری کی جگہ پر انجینیئر سیکرٹری لگے گا تو اس کو بہت ساری چیزیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی وہ خود فیلڈ کا بندہ ہے تو وہ سب کچھ جانتا ہوگا تو وہ پروگریس کے اوپر اور نتائج کے اوپر کام کرے گا۔ جب فیصلے کرنے والے کو سب خود معلوم ہو تو فیصلے پر دھڑا دھڑ ہوتے ہیں۔ اج افغانستان کے ساتھ آپ کے حالات ٹھیک نہیں ہیں میں کہتا ہوں انجینیئر اس کو بہتر کر سکتا ہے کہ آپ پانی سے بجلی بنا کے افغانستان کو دیں جب اس کے حالات بہتر ہوں گے تو وہ آپ کے ساتھ مسئلہ نہیں کرے گا۔ لیکن ان چیزوں کا فیصلہ کون کرے گا جو خود پریکٹیکل ہوگا۔ آپ چائنہ یا کسی بھی ملک کو دیکھیں جس نے پچھلے 15 سالوں میں ترقی کی ہو اس کے پالیسی میکر ٹیکنوکریٹس ہیں۔ ٹیکنیکل لوگ ہیں جس کی وجہ سے وہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ فیصلے میں تین نقات ہوتے ہیں سب سے پہلے ڈسین میکنگ دوسرے نمبر پہ پلاننگ اور تیسرے نمبر پہ اس کو لاگو کرنا اور یہ تینوں چیزیں کوئی ٹیکنیکل آدمی کرے گا تو رزلٹس آئیں گے۔