امریکی تعلیمی نظام کے منفر پہلو
اپنے تجربے کے حوالے سے میں کوشش کروں گا کہ امریکی تعلیمی نظام کے کچھ ایسے پہلو واضح کروں جو کہ ہمارے پالیسی بنانے والے لوگوں کے لیے بھی معاون ہو۔ میں نے امریکہ میں آٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا اور وہاں کے تعلیمی نظام کو بہت قریب سے دیکھا۔ امریکہ نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس میں انہوں نے ایک سو سال سے 200 سال کا عرصہ لگایا۔ اپنے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر کیا اور اسی وجہ سے آج وہ اس مقام پر پہنچے ہیں ۔ ان کو یہ مقام ملنا بھی چاہیے کیونکہ انہوں نے بڑے منفرد طریقے سے اپنے اس معیار کو بہتر بنایا اور برقرار رکھا۔ میں امریکہ کے اعلٰی تعلیمی نظام کے حوالے سے بات کروں گاجیسا کہ یونیورسٹیز کی تعلیم۔
ان کے تعلیمی نظام کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ مرکزی طور پر طالب علم کی سوچ کو وسعت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی ذہنی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کوتدبر کرنے کا عادی بناتے ہیں۔ وہ اپنے طالب علم کو اس طرح سے تعلیم دیتے ہیں کہ اس طالبعلم کے اندر اعتماد اور تنقید اور تحقیق کا عنصر واضح پیدا ہو۔ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا طریقہ کار مختلف ہے۔ وہاں پہ ٹیسٹ لینے کا طریقہ مختلف ہے۔ وہاں پہ تحقیق کا طریقہ مختلف ہے۔ کمرہ جماعت کا ماحول بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ طالب علم کے ذہنی صلاحیت کو اتنا مضبوط کرتے ہیں کہ ان کی فکری اور تحقیقی سوچ بلند ہو جاتی ہے۔ شکوک و شبہات اور بے اعتمادی ان سے نکال دی جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کی یونیورسٹی سے پڑھا ہوا شخص بہت جلد کسی مقام تک پہنچ جاتا ہے یا اگر کوئی کام کرتا ہے تو اس کو دنیا کی بڑی کمپنی بنا دیتا ہے۔
پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں بڑی سے بڑی تحقیق اور ترقی یا ترقی کا آغاز امریکہ سے شروع ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور ایسا کیوں ہوا؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ اس کی بنیاد ان کے تعلیمی نظام سے شروع ہوتی ہے۔
امریکی تعلیمی نظام کا جو پہلا منفرد پہلو میں بیان کرنا چاہوں گا وہ ان کی جماعت کا ماحول ہے۔ کمرہ جماعت یا کلاس میں ہمارے ایشیاء کی طرح وہاں روایتی تعلیم نہیں دی جاتی وہاں تعلیم دینے کا یا لیکچر دینے کا انداز منفرد ہے وہاں پر کوئی بھی معلم یا مفکر جب بات کرتا ہے وہ اس انداز سے نہیں کرتا کہ میں (استاد) حرف آخر بیان کر رہا ہوں۔ سوال کو وہ اہمیت دیتا ہے۔ طالب علم کو تنقید کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ طالب علم کو اپنی رائے بیان کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک تعلیمی رجحان اور فکری رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ پروفیسر اور طالب علم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ استاد بھی یہ پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ تحقیق کر کے جائے تاکہ طلبہ کو فکر کے معیار تک لے جائے۔ چیدہ چیدہ مسائل ہر جگہ موجود ہوتے ہیں لیکن یہ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ کلاس میں تقریری ماحول کو اہمیت دی جاتی ہے بحث و مباحثوں کو پسند کیا جاتا ہے تنقید کو غلط نہیں سمجھا جاتا بشرط ہے کہ تنقید برائے تنقید نہ ہو تنقید برائے اصلاح ہو۔ میں نے ایسا بھی ماحول دیکھا ہے کہ ایک ٹیچر نے کوئی مضمون بیان کیا اور جب اس کے اوپر سوال کیے گئے تو اس نے معذرت کر لی اور اس نے خود تحقیق کر کے اگلے دنوں میں اس کی وضاحت پیش کی اور اس میں بالکل بھی انہوں نے آر محسوس نہیں کی۔ وہاں کے اساتذہ کا یہ بڑا پن ہے کہ وہ تنقید کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم کل نہیں سمجھتے۔ کمرہ جماعت کا ماحول سخت نہیں ہوتا۔ہلکی ہلکی مزاح کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ تقریر سے زیادہ استاد طلبہ کے ساتھ گفتگو کرنا پسند کرتا ہے۔ پروفیسر بھی اپنے مضمون میں تحقیق کر کے آتا ہے اور دل سے باتیں کرتا ہے ۔ اپنی پوری تحقیق بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے طلبہ محظوظ ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سیکھ کر جاتے ہیں۔ اپنے علم کو پیچیدہ کر کے بیان نہیں کرتا اپنے خیالات کو عام مثالوں سے جوڑ کر بیان کرتا ہے۔
اچھے رویے کے ساتھ ساتھ وہاں کے اساتذہ نظم و ضبط کی پابندی کرتے بھی ہیں اور کرواتے بھی ہیں اس پہ وہ بالکل بھی عدم برداشت رکھتے ہیں۔ نہ تو وہ خود تاخیر سےآنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی تاخیر پر آنے پر وہ غلطی کو معاف کرتے ہیں۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو وہ اچھے دوست نظر آتے ہیں لیکن جب نظم و ضبط کی بات آتی ہے تو وہ بالکل پروفیشنل طور پہ بات کرتے ہیں۔ جب طلبہ کی نمائندگی یا انٹر وئیوز ہوتے ہیں اس وقت اساتذہ رہنمائی کرتے ہیں اچھی ڈریسنگ کا کہتے ہیں۔ اپنی حرکات و سکنات کو بہتر کرنے کا کہتے ہیں۔ کمیونیکیشن کو بہتر سے بہترکرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ گریجویٹ جب ڈسپلن سیکھ کر پروفیشنل لائف میں جاتا ہے تو اسی ڈسپلن کو عملی جامہ پہناتا ہے۔
امریکی تعلیمی نظام کا ایک اور منفرد پہلو ان کا ٹیسٹنگ کا طریقہ کار ہے۔ وہاں پر یاداشت کا امتحان نہیں ہوتا وہاں پہ آپ کے خیالات اورآپ کی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے۔ امتحان میں وہ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہیں کہ جو علم ہم آپ نے دیا ہے آپ نے اس علم کو کتنا سمجھا ہے اور کتنا اس علم کو عملی جمع پہنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ امتحان میں وہ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ایک طالب علم نئی تحقیق کتنا کر سکتا ہے نئے آئیڈیاز کو وہ کس انداز سے دیکھتا ہے مسائل کو نئے طریقے سے کیسے حل کر سکتا ہے۔ وہ گریڈ اس طرح سے دیتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے ایک طالب علم کو انڈسٹری میں بھیجا اور کہا کہ اپ اس تھیوری کو وہاں پہ اپلائی کریں اور اس کے جو بھی رزلٹس ہیں اس کو ہمیں بتائیں۔
ایسے امتحان کا پاکستان میں تصور موجود نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ بڑے درجے کی کمپنیاں یا ادارے ایسا کر رہے ہوں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اس میں دشواریاں بہت ہیں پاکستان میں۔ میں جن یونیورسٹیز میں پڑھاتا رہا وہاں پر میں نے ایسے ٹیسٹنگ میکنزم کو اپنانے کی کوشش کی لیکن ہمارا نظام یہ ہے کہ جزئیات میں پھنسے رہتے ہیں جس سے قابل آدمی کی صلاحیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا
رہ گئی رسم آذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
انداز یہ ہے کہ ہم کاغذی کاروائی میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ صلاحیت اور تحقیق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یادداشت کا امتحان لیا جاتا ہے صلاحیتوں کا نہیں۔
ان کے امتحان کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ طالب علم کے اندر کتنا علم موجود ہے کتنا تجسس موجود ہے کتنا تحقیق کا جذبہ موجود ہے اور کتنا اس کی صلاحیتیں موجود ہیں اس حوالے سے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا طالب علم جب عملی میدان میں آتا ہے تو اس میں ترقی، تحقیق اور تجسس کا مادہ واضع طور پر نظر آتا ہے۔
امریکی تعلیمی نظام کا منفرد پہلو ایک یہ ہے صنعتی تحقیق میں یونیورسٹیز کا بہت بڑا کردار ہے۔ امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹیز کا ناسا کے ساتھ ایک ایگریمنٹ تھا تحقیق کے حوالے سے۔ یونیورسٹیز کے گریجویٹ اور پروفیسر حضرات صنعت میں تحقیق کا عمل سر انجام دیتے تھے اور انہی مسائل کا حل میں وہ پی ایچ ڈی کرتے تھے۔ یہ جو میکنزم اور طریقہ کار ہے امریکی تعلیمی نظام کا یہ بہت ہی منفرد۔
یونیورسٹیز کا یہ اہم کردار ہے کہ وہ صنعتی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے جتنی بھی تحقیق چاہیے وہ بہت ہی سستے اور آسان ماحول میں مہیا کرتی ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں جب میں کام کر رہا تھا وہاں مجھے یاد ہے کہ اس شہر کے میئر ہم سے ریسرچ کرواتے تھے تمام سماجی مسائل کے حل کے لیے ہمیں مدعو کیا جاتا تھا اور ہم ان کو بہتر سے بہتر مسائل کے حل پیش کرتے تھے۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارا ملک کسی بھی درجے سے کم ہے اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم نے بہتری کی طرف جانا ہے تو ہم نے ہر کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھنا ہے۔ ہم نے سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہے اور بالخصوص ہائر ایجوکیشن لیول کو بہتر سے بہتر کرنا۔ یونیورسٹیز میں تحقیق کا عمل جاری کرنا ہے اور اس تحقیق کو سند سے جوڑنا ہے تاکہ وہاں سے جو بھی علم تحقیق ہو رہی ہے وہ معاشرے میں عملی طور پر بھی موجود نظر آئے۔