پروفیسر اعجاز نثار کے ساتھ ایک نشست

Dr. Ali Sajid
0

 پروفیسر اعجاز نثار کے ساتھ ایک نشست

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم اس شخصیت کے ساتھ بیٹھے ہیں جن کو ترقی کرتے ہوئے میں نے خود دیکھا۔جناب اعجاز نثار صاحب درمیانے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور محنت مشقت قابلیت حوصلے جذبے کے ساتھ کام کرتے کرتے آج ایک مقام حاصل کر لیا۔ یہ نوجوانوں کے لیے بہت ہی اعلٰی مثال ہیں۔ محترم اعجاز نثار صاحب وہ شخصیت ہیں جنہوں نے محنت کر کے بہت کم عرصے میں جوانی کی عمر میں کامیابیوں کی منزلیں حاصل کی۔ 


پروفیسر اعجاز نثار کے ساتھ ایک نشست
پروفیسر اعجاز نثار کے ساتھ ایک نشست


جناب اعجاز نثار صاحب السلام علیکم!آپ  کیسے ہیں؟ 

اعجاز نثار: وعلیکم السلام !الحمدللہ میں  ٹھیک ہوں۔ ڈاکٹر (علی ساجد) صاحب بہت شکریہ آپ کا۔  

میں نے اعجاز نثار صاحب کو پچھلے 15 سال میں دیکھا ہے ان کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ مسائل کو مواقع سمجھتے ہیں۔ ان مشکلات میں وہ مواقع ڈھونڈتے ہیں ۔ میں خود اس کا شاہد ہوں کہ جناب اعجاز نثار صاحب نے سیکڑوں بچوں کی ٹریننگ کی ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ آپ سترویں گریڈ میں منتخب ہو گئے تھے اچھی خاصی سرکاری نوکری مل رہی تھی آپ کو آپ نے وہ چھوڑ کر  محنت کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ اور سادگی اختیار کرنے کا کیا سبب ہے؟۔ مختصر طور پہ میں یوں کہوں گا کہ آپ نے افسری چھوڑ کے سادگی کا لبادہ کیوں اوڑھ لیا؟ 

اعجاز نثار: ڈاکٹر علی ساجد صاحب سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میں خود آپ کو بطور مثال سمجھتا ہوں۔ میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سیکھ رہا ہوں اور بہت کچھ سیکھنے کا ارادہ ہے۔ میں نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا میں نے نیشنل بینک میں بھی کام کیا سٹیٹ بینک میں بھی کام کر چکا ہوں مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اور جب خصوصاً لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں تو میں انہیں سادگی سے جواب دیتا ہوں کہ 

میں آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں۔ 

لوگ ارسطو اور سقراط کے کیوں مخالف ہو گئے تھے ؟کیونکہ وہ لوگوں کو سوچنا سکھاتے تھے وہ علم کی روشنی پھیلاتے تھے اور یہی ان کا بہت بڑا جرم تھا۔ ہم اس دور میں رہ رہے ہیں کہ لوگوں کی تخلیقی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔جب سے ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ  کی آمد ہوئی لوگوں کے کام آسان ہوتے چلے گئے لوگوں نے سوچنا چھوڑ دیا۔ لوگ اپنا دماغ استعمال نہیں کرنا چاہتے جو بھی چاہیے انٹرنیٹ پہ سرچ کرتے ہیں انہیں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔ جو انٹرنیٹ نہیں دے سکتا جو ٹیکنالوجی نہیں دے سکتا وہ ہے درد دل پیدا کرنا کیونکہ اس کے بغیر انسان انسان نہیں رہ سکتا۔ اب میری سوچ کا مرکز میرا مقصد میرا ہدف یہ انسانوں کے اندر درد دل پیدا کرنا ہے۔

حصہ دوئم

جب میں میٹرک کر رہا تھا اس وقت میں ہوم ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ جب میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا تھا اس وقت آدھی کلاس مجھ سے شیکسپیئر   پڑھتی تھی۔ میں نے ٹاٹوں والے سکول سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں نویں کلاس میں بینچ پر بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ اس سے پہلے ہم ٹاٹوں پر ہی بیٹھے تھے۔ جب انسان مشکلات سے گزرتا ہے تو وہ بہت سارے معاملات سیکھ جاتا ہے۔ میں نے بھی سیکھ لیا تھا کہ اس زندگی کا سب سے بڑا فلسفہ معاش ہے۔ اس لیے میں نے آٹھویں جماعت سے کمانا شروع کر دیا تھا۔ ٹیوشن پڑھانا تو میں نے آٹھویں جماعت سے ہی شروع کر دیا تھا۔ میٹرک کا داخلہ میں نے خود کما کر بھیجا تھا۔ جب میٹرک کے داخلی جا رہا تھا میں نے سمن آباد میں ایک گھر میں اے سی ٹھیک کرنے کا کام کیا ہے۔ اے سی ٹھیک کرنے کے بعد مجھے وہاں سے 220 روپے ملے تھے۔ میں نے استاد کے ہاتھ پہ 220 روپے رکھ دئیے۔ استاد نے پوچھا کہ تمہارا میٹرک کا داخلہ چلا گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں استاد! تو اس نے  مجھے 200 روپے دے دیے۔ اور وہاں سے میں نے اپنے داخلہ بھیجا۔

 آج میں جب یونیورسٹیز میں جاتا ہوں اور طلبہ سے پوچھتا ہوں کہ تمہارے فیس کون جمع کرواتا ہے؟ تو اکثر کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے والد یا دادا یا والدہ  جمع کرواتے ہیں. یہ سن کر میں انہیں کہتا ہوں تم خود فیس جمع کیوں نہیں کرتے؟ ترقی یافتہ ملکوں میں 20 سال کے بعد بچے اپنی فیس خود جمع کرواتے ہیں خود کماتے ہیں۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ جب پیٹرول 332 روپے ہوا تو اس کا اثر کس پر ہوگا؟ تو میں نے انہیں کہا پاکستان کی صرف 10 فیصد کمانے والے لوگوں پر اثر ہوگا کیونکہ باقی 90 فیصد لوگ پیراسائٹ ہیں۔ باقی 90 فیصد لوگ ان 10 فیصد کی محنت کا کھا رہے ہیں۔ ادھی سے زیادہ عورتیں بوجھ ہیں وہ کما کر نہیں کھاتی دو سے چار فیصد خواتین ایسی ہیں جو کماتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں عورتیں کوئی نہ کوئی کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں آدھی سے زیادہ خواتین اس انتظار میں ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کوئی انہیں چندہ یا امداد مل جائے۔ مجھے اس بات سے بہت دکھ ہوتا ہے جب میں لنگر خانے چلتے ہوئے دیکھتا  ہوں۔ بجائے یہ کہ یہاں لنگر خانہ ہے  یہاں پر فیکٹری ہونی چاہیے تھی تاکہ لوگوں کو کام ملے اور لوگ کما کر کھائیں۔ اس طرح کے کاموں سے لوگوں کے اندر جو کمانے کی صلاحیت ہے خوبیاں ہیں وہ مر جاتی ہیں۔ میرا ایک چھوٹا بھائی ٹی سی ایس TCSکمپنی میں ایریا مینجر ہے. اور دوسرا بھائی ماشاءاللہ حافظ ہے اور آرمی میں میجر ہے۔ اور اس نے ابھی سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ میرے اپنے بچے ماشاءاللہ اچھی یونیورسٹیز میں پڑھ رہے ہیں۔ 

میری عمر 22 سال تھی جب میں  پی ایم ایس(PMS) آفیسر تھا۔ اس وقت میری 3500 روپیہ تنخواہ تھی اور میں نے یہ اس لیے چھوڑی کہ مجھے بہتر سے بہتر کی تلاش کرنی تھی۔ اسی دوران میں نے بینکنگ کمیشن کا امتحان دیا تھا وہ میں نے پاس کر لیا تو میری تنخواہ تقریباً 11 ہزار روپے ہو گئی۔ یہ بھی سرکاری نوکری تھی پہلی جاب میں نے اسی لیے چھوڑی اس کے بعد میں نے اگلی جاب سٹیٹ بینک میں کی۔ سٹیٹ بینک میں ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کی صرف ایک ہی سیٹ تھی اور اس میں پوری دنیا سے پڑھے ہوئےامید وار آئے تھ۔ے میں بھی تھا اور ان میں سے میں سلیکٹ ہو گیا۔ میں پاکستان سے پڑھا ہوا تھا اور مجھے اس پہ فخر تھا کہ سٹیٹ بینک میں میں نے تین سال کام کیا اور تقریباً ساڑھے تین ہزار سے زیادہ لوگوں کی ٹریننگ کی۔ 

جب سٹوڈنٹس یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے پاس بہت سارے وسائل نہیں ہیں۔ایسے موقع پر میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ خوش قسمت ہیں کیونکہ ایسی صورتحال میں، جب آپ مشکل سے گزرتے ہو آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ جب وسائل پورے ہوں تو صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ 

جب کسی انسان کو ملال ہوتا ہے اور اس کے اندر نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے وہ شخص کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ملال بے قراری کے بعد اپ نے اگر اپنی زندگی میں نظم و ضبط کی ذمہ داری لے لی تو اپ ذہنی طور پر مضبوط ہو جائیں گے اور اگر آپ نے وہ ذمہ داری نہ لی تو اب ذہنی طور پہ کمزور ہوتے چلے جائیں۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: ہمارے خطے کے نوجوانوں کے کون سے بڑے بڑے مسائل ہیں؟ 

ڈاکٹر نثار: ہماری نوجوان نسل کے دو بڑے مسائل ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا پہلا بڑا مسئلہ اور چیلنج سستی ہے۔ 

اس حوالے سے علامہ اقبالؒ کا ایک شعر ہے

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں فراغ

اس بات کو اگر میں آسان کر کے بیان کروں تو وہ یہ ہے سستی یا کاہلی انسان کو برباد کر دیتی ہے اور زندگی میں اضطراب بے چینی اور کوشش انسان کو کمال تک پہنچا دیتی ہے۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: آپ کی بات کو اگر میں آگے بڑھاؤں تو علامہ محمد اقبال کا ایک شعر ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے نوجوانوں کی آسائش پسندی بہت اذیت دیتی ہے کیونکہ نوجوانوں کو پرسکون ہو کے بیٹھنا نہیں چاہیے یہ انسان کی صلاحیتوں کو مردہ کر دیتی ہیں۔ آپ جیسے لوگ نوجوانوں کے لیے بہترین مثال ہیں کہ جو بچپن میں یتیم ہوئے لیکن یتیمی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا خود محنت کر کے تعلیم حاصل کی اور آج ایک بلند مقام حاصل کیا۔ 

اعجاز نثار : میں آپ کی بات سے متفق ہوں میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں میں یہ چیز بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں احساس مروت  پیدا ہو محنت کا جذبہ پیدا ہو شوق پیدا ہو پھر جا کے ہم کچھ حاصل کر پائیں گے۔ ٹیکنالوجی نے ہمارے نوجوانوں کو مزید سست کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ جو کچھ ہم سوچتے ہیں سوچنا چاہتے ہیں وہ انٹرنیٹ سے ہمیں پہلے مل جاتا ہے اس لیے ہم جستجو نہیں کرتے اور جستجو نہ کرنا سستی کی بڑی وجہ ہے۔ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ٹیکنالوجی سے اگے سوچنا ہوگا ورنہ ٹیکنالوجی ہمیں اپنے بہاؤ میں لے جائے گی۔ایک مرتبہ جیکما نے جو کہ دنیا کے 10 امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھا اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ تعلیم کا مستقبل یہ ہے کہ مشین انسان کی طرح سوچنا شروع کر دیں گے لیکن میرا خوف یہ ہے کہ انسان مشینوں کی طرح سوچنا شروع کر دیں گے۔  

جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے معاشرے میں جہالت اور بھوک اور افلاس اتنی ہی زیادہ ہوتی جا رہی ہے انسان کی ترقی کا یہ رخ جو ٹیکنالوجی کے گھوڑے پر سوار ہے یہ خطرناک راہوں پہ جا رہا ہے۔ انسانوں کے اندر احساسات مرتے جا رہے ہیں اور یہی انسانیت کی موت کی بڑی وجہ ہے۔

پروفیسر اعجاز نثار کے ساتھ ایک نشست
پروفیسر اعجاز نثار کے ساتھ ایک نشست



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !