پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کے ساتھ ایک نشست

Dr. Ali Sajid
1

پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کے ساتھ ایک نشست

السلام علیکم ! یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم پروفیسر ڈاکٹرمحمد نظام الدین کے ساتھ ہیں۔ لاہور کو پاکستان کا تعلیمی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے لاہور کو کالجوں کا شہر کہا جاتا تھا۔  آج لاہور شہر میں ہم ڈاکٹر نظام الدین صاحب کے ساتھ ہیں۔ ہم جانیں گے کہ ڈاکٹر صاحب نےکون کون سے شعبوں میں کام کیا اور کامیابی کا یہ سفر کہاں سے شروع کیا؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کے ساتھ ایک نشست
پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کے ساتھ ایک نشست

ڈاکٹر پروفیسر محمد  نظام الدین: پروفیسر ڈاکٹرعلی ساجد صاحب آپ کا بہت شکریہ۔ میرا خاندان حیدرآباد دکن میں آباد تھا۔ تقسیم ہندوستان کے بعد میرا خاندان کراچی منتقل ہو گیا ۔ میری ابتدائی تعلیم ا کراچی سے ہی ہے۔ جامعہ کراچی میں میں نے تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگری میں نے جامعہ کراچی سے حاصل کی۔ اور وہیں سے میں نے اپنی پہلی نوکری بھی شروع کر دی تھی۔ میری پہلی  نوکری  بین الاقوامی سطح کی  تھی۔ جب مجھے یہ نوکری ملی اس وقت میرا رزلٹ نہیں آیا تھا۔

پاکستان میں  ایک پروجیکٹ شروع ہوا تھا ۔جس میں آبادی کا سروے کرنا تھا ۔ اس منصوبے میں مجھے موقع ملا اور میں  اس کا حصہ بن گیا۔ اس وقت پروجیکٹ کے لیے ایک ایسا آدمی چاہیے تھا جو ایک ٹیم کوساتھ لے کر چل سکے۔ پڑھائی میں میں اچھا تھا۔سوشالو جی ڈیپارٹمنٹ کی چیئر پرسن نے میرا نام منتخب کیا۔ جولائی 1965 میں مجھے نوکری ملی اور میں کام کے لیے چلا گیا ۔جبکہ میرا رزلٹ ستمبر 1965 کو آیا۔ اس وقت پاکستان اور انڈیا کی جنگ بھی ہوئی۔ وہ ایک ریسرچ پروجیکٹ تھا۔ اس پروجیکٹ کے حوالے سے ہم نے یہ معلوم کرنا تھا کہ مخصوص آبادی کے حصے میں لوگوں کوبہبود آبادی  کا کتنا علم ہے اور اس حوالے سے ان کا رویہ کیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ جن لوگوں کو خاندانی بہبود آبادی کا علم ہے وہ اس پہ کتنا عمل کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ایک سویڈش ایڈوائزر بھی تھے۔ وہ ایڈوائزر کراچی میں آئے تو ہم نے12 افرادکی ٹیم کے ساتھ مل کے کام کیا۔اس ٹیم کے ممبر زمیں اکثریت میرے ہم جماعت تھے۔انہوں نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔  میں نے ایک سوال نامہ ڈیزائن کیا۔ سروے کے آغاز کے تقریبا آٹھویں مہینے ہم نے سروے مکمل کر لیا تھا۔  1966 ءمیں ہمارے پاس اعداو شمارآگئےتھے۔ اس کے بعد ڈیٹا کی پروسیسنگ کا کام ہم نے شروع کر دیا۔ ہمارے علم میں تھا کہ سٹیٹسٹکس کے کلیے استعمال کر کے اعداد و شمار سے نتائج نکالے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں بتایا گیا کہ آپ نے ان اعداد و شمار پہ خود کام کرنا ہے اور خود ہی اس کے نتائج نکالنے ہیں۔اس ڈیتا کی بنیاد پر آپ نے مفروضے بنانے نہ کہ پہلے بنے مفروضوں پر کام کرنا ہے۔  1967ء میں اس سروے کی رپورٹ آگئی۔ بڑے لوگوں نے اس رپورٹ کی تعریف کی کیونکہ ہم نے تفصیل کے ساتھ سروے کیا ہوا تھا۔ 

میری ریسرچ کی بنیاد پر مجھے گورنمنٹ آف پاکستان (USAID) کی طرف سے سکالرشپ کا موقع ملا۔ اس سکالر شپ کی بنیاد پر میرا یونیورسٹی آف شکاگو میں ماسٹرز میں ایڈمیشن ہو گیا ہے۔ وہ میرے لیے بہت اچھا موقع تھا۔ وہ ماسٹرز کے لیے ڈیڑھ سال لگاتے ہیں لیکن میں نے ایک سال کے اندر ماسٹرز کر لیا تھا۔ اس پر میرے پروفیسرز مجھ سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم مزید جاری رکھنا چاہتے ہو؟ تو میں نے ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد مجھے پی ایچ ڈی میں داخلہ  مل گیا۔ اس پرUSAID والوں نے اعتراض کیا کہ آپ ایک سال کے لیے معاہدہ کر کے آئے تھے۔لہذا اس معاہدے کے تحت آپ کو واپس پاکستان جانا چاہیے۔ 

اس دوران مجھے علم ہوا کہ  سروے کا  سویڈش پروجیکٹ بند ہو گیا ۔ جتنا بھی اس کا سٹاف تھا اس کو چھٹی دے دی گئی تھی۔ لاہور کا آفس انہوں نے گورنمنٹ آف پاکستان کے حوالے کرنا تھا۔ لیکن اس کا ڈائریکٹر انہوں نے مجھے  بنایا۔ اس کے بعد کراچی سے لاہور آگیا۔ میں جنوری 1997 ءمیں لاہور آگیا تھا۔ تقریبا جولائی 1971 ءمیں گورنمنٹ نے یہ آفس حکومتِ پاکستان  کے حوالے  کرنا تھا۔ گورنمنٹ نے میرے انٹرویوز کیے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے منتخب کر لیا۔ تب سے 1970 ءسے میں لاہور میں ہوں۔ تب سے میں پھر کراچی نہیں گیا ۔امریکہ اور دیگر بہت سے ممالک  جانا ہوا لیکن کراچی نہیں گیا رہنے کے لیے۔ 

کراچی سروے کی بنیاد پر مجھے ورلڈ سروے میں بھی کام کرنے کا موقع ملا ۔ یونائٹڈ نیشنز(UN) نے ورلڈ لیول کا سروے کروانا تھا جس کو انہوں نےورلڈ فرٹیلٹی(WFS) سروے کا نام دیا تھا۔ اس سروے کی فنڈنگ یونائٹڈ نیشنز کی طرف سےتھی۔ اس میں تقریباً 53 ترقی پذیر ممالک شامل تھے۔ اور اس کا ہیڈ کوارٹر انہوں نے لندن میں بنایا ہوا تھا۔ 1974ء میں بینکاک میں کانفرنس ہوئی  ۔اس کانفرنس میں کافی سارے ممالک سے پوچھا گیا کہ جو ایس سروے میں شامل ہونا چاہتا ہے وہ نامزد ہو سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی میں کر رہا ہوں۔ میرے پاس پروپوزل اورتجربہ دونوں تھے۔ اس کی بنیاد پر انہوں نے مجھے منتخب کر لیا۔ یہ سروے دو سال کا تھا۔ مجھے پاکستان کی طرف سے پروجیکٹ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ یہ نیشنل سروے تھا۔ اس سروے کے تحت میں پورا پاکستان گھوما۔ 6500 خواتین کے انٹرویوز کرنے تھے۔ اس دوران میری رہائش گلبرگ لاہور میں ہی تھی۔  سروے کے لیے میں بلوچستان، کے پی کے،  پنجاب،سندھ اوردیگر علاقوں میں جاتا رہا۔ دو سال کا وقت تھا تو ہم نے ایک سال میں یہ کام مکمل کر دیا۔  اس کارکردگی کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ مجھے ایک سکالرشپ کی پیشکش آئی لیکن اس کی شرط یہ تھی کہ گورنمنٹ آف پاکستان اس کی اجازت دے۔ گورنمنٹ نے اجازت نہیں دی لیکن میں نے چھٹی کی بنیاد پر یہ سکالرشپ لے لی۔ یونیورسٹی آف مشیگن میں میرا داخلہ ہو گیا۔ 1976ء میں مجھے مشیگن یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اور میں وہیں چلا گیا۔ پی ایچ ڈی سے پہلے وہاں پہ کورس ور کرنا پڑتا ہے تو یونیورسٹی جا کر پہلے میں نے یہ کورس ورک مکمل کیا ہے۔ دو سال اور سات ماہ میں میں نے اپنا تھیسز مکمل کر لیا۔ فاؤنڈیشن کی طرف سے مجھے تین سال کا سکالرشپ ملا تھا۔  

اس دوران مجھے ایک موقع ملا۔ وہاں پہ کانفرنسز ہوتی تھی ۔ایک کانفرنس میں معلوم ہو کہ انہیں ایک ایسا ادمی چاہیے  جو پبلک سروے کر چکا ہو۔ ان کے پاس کچھ سروے پروگرام تھے اور وہ بھی USAID کی طرف سے تھے۔ وہاں پہ میں نے انٹرویو دئیے اور تجربہ کی بنیاد پر مجھے انہوں نے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں منتخب کر لیا۔  اس میں مجھے کہا گیا کہ آپ نے کورس بھی پڑھانا ہے اور آپ نے سروے بھی مکمل کرنا ہے۔ اس سروے کے تحت مجھے افریقہ کے کچھ ممالک میں جانا تھا جیسے صومالیہ ،  ایتھوپیا اور دو اور ممالک میں۔ تقریباً چار سال میں ایتھوپیا میں رہا۔ اس کے بعد میں دو سال کے لیے اردن چلا گیا، اردون میں بھی سروے میں نے وقت سے پہلے مکمل کر لیا۔ اس کے بعد مجھے مصری حکومت کی طرف سے پیشکش آئی انہوں نے بھی اپنے ملک میں سروے کرانا تھا۔ وہ بھی یونائٹڈ سٹیٹ کی فنڈنگ کے تحت تھا۔ مصر میں مجھے چار سال لگ گئے۔ اس طرح میں نے یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ اس دوران مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ تمہیں تجربہ ہے یونائٹڈ نیشنز(UN) کو کنٹری کی ریپریزنٹیٹو(Representative) کے تحت مستقل جوائن کر لو ۔ میں نے انٹرویوز دیے اور سلیکشن کے بعد تقریباً میںUN کا مستقل  حصہ بن گیا اور 24 سال میں نے یونائٹڈ نیشنز میں کام کیا ہے۔ 2005 ءمیں، میں پاکستان واپس آگیا۔  

جاری ہے۔۔۔۔۔


Post a Comment

1Comments

Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !