سکولوں میں بچوں کو کیا سکھایا جانا چاہیے؟
تعلیم
کے حوالے سے بات کی جائے تو اپنے طلبہ کو کامیاب کرنا ہمارا فرض ہے۔ جو بھی سکول
چلا رہے ہیں وہ طلبہ کی بنیاد بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں سنٹرل
ماڈل سکول لاہور میں پڑھتا رہا ہوں۔ ایف ایس سی میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کی۔ یو
ای ٹی لاہور سے میں نے انجینئرنگ کی۔ ایم ایس اور پی ایچ ڈی میں نے امریکہ سے کی۔ میں تقریباً نو سال واشنگٹن امریکہ میں رہا۔ اور
تقریباً چار سے پانچ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی ہے میں نے۔ جب 1990ء کی
دہائی میں واپس پاکستان آیا تو اس وقت یونیورسٹی NUST بن رہی تھی۔NUST یونیورسٹی کی بنیاد میں ہم نے کام بھی کیا اور پڑھایا بھی۔
![]() |
ڈاکٹر علی ساجد |
پاکستان
کے قومی شاعر علامہ محمد اقبالؒ کو اقبالؒ اس کے اساتذہ نے بنایا۔ ایک بہت یادگار واقعہ ہے کہ علامہ محمد
اقبالؒ صاحب ایک مرتبہ گلی سے جا رہے تھے تو ان کے بہترین استاد میر حسن انہیں مل
گئے۔ میر حسن نے اپنا بیٹا"احسان " علامہ اقبال کو تھما دیا ہے۔میر حسن کے بیٹے کا نام احسان تھا۔ اسی دوران میر حسن کسی تیسرے
شخص کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ استاد میر حسن صاحب کی گفتگو طویل ہو گئی۔
کچھ دیر گزری تو علامہ اقبالؒ نے احسان کو اونچی جگہ پر کھڑا کر دیا۔ کچھ دیر کے
بعد جب استاد میر حسن متوجہ ہوئے تو انہوں نے علامہ اقبالؒ سے کہا کہ اقبال یہ
بتاؤ کیا احسان بھاری ہے؟ یہ سوال سن کر
علامہ محمد اقبالؒ نے بھی اپنے شاعرانہ انداز میں کہا کہ جی استاد محترم آپ کا
احسان بہت بھاری ہے۔
علامہ
اقبالؒ کا کہنے کا مقصد تھا کہ آپ نے علمی لحاظ سے میرے اوپر جو احسانات کیے ہیں
وہ احساناتآپ کے میں نہیں اٹھا سکتا۔ علامہ اقبالؒ کے والد درزی تھے اور بالکل ان پڑھ
تھے ۔ایک استاد نے درزی کے بیٹے کو اس طرح سے تبدیل کر دیا کہ وہ شاعر مشرق بن گیا
اور یہی میر حسن جیسے استاد کا کمال ہے۔
میرے
مطابق سکول میں استاد کا کام ترجمہ پڑھانا
نہیں ہے۔ ریاضی کے کلیے سمجھانا نہیں ہے بلکہ ایک شاگرد کو خواب دکھانا ہے اس کی
صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ بنیادی طور پہ سوچ کی تبدیلی سکولوں میں ممکن ہے۔ اس کے
بعد طالب علم کی سوچ آہستہ آہستہ پختہ ہونا شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اب یہ اساتذہ کا
کام ہے کہ اس بچے کے اندر احساس پیدا کریں والدین کے لیے چھوٹے بڑے بہن بھائیوں کے
لیے رشتہ داروں کے لیے غریبوں کے لیے معاشرے کے لیے ملک کے لیے۔ بچوں میں جتنی
حساسیت پیدا ہوگی اتنا ہی معاشرہ ترقی کرے گا اس کے اخلاقیات اور اقدار پیدا ہوں
گے۔ جتنا بھی معاشرے میں عدم برداشت ہے وہ عدم حساسیت کی وجہ سے ہے۔ اہل مغرب نے
اپنے بچوں کے اندر حساسیت پیدا کی کہ معاشرے میں کسی کا احساس کیسے کرنا ہے؟ کسی
کو نقصان نہیں پہنچانا ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کے رہنا ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ
مغرب کس طرح سے ترقی کر رہا ہے۔ اب وہی بچہ جس نے سکول میں حساسیت سیکھی ہوئی تھی
جب وہ عملی زندگی میں آیا اور کسی مقام پہ پہنچا اور ملک کے قوانین بنانے لگا تو
اس نے قوانین اس طرح سے بنائے جس میں غریبوں کا احساس شامل تھا۔
بد قسمتی سے ہمارے سکولوں میں بچوں کو حساسیت نہیں
سکھائی گئی اس وجہ سے جب وہ کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو وہ دوسروں کا احساس نہیں
کرتے ان کے اندر فرعونیت بھر جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ہمارا ادارہ ہمارے محکمے عدم
حساسیت سے بھرے ہوئے ہیں۔ جب معاشرے میں حساسیت پیدا ہوتی ہے تو بہت سارے مسائل ایسے
ہیں جو وقت سے پہلے حل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
جن معاشرے میں حساسیت ختم ہو جاتی ہے ان
میں مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کو حل کرنے میں اتنی ہی دیر لگ جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں آپ دیکھ لیں آپ کسی بھی افسر کے پاس چلے جائیں کسی بھی بڑے دفتر
میں چلے جائیں آپ کی بات نہیں سنی جاتی۔آپ کو احتجاج کرنا پڑتا ہے آپ کو انتہائی
قدم اٹھانا پڑتا ہے پھر جا کے آپ کی بات سنی جاتی ہے اور آپ کا مسئلہ حل ہونا شروع
ہوتا ہے۔ اب یہ وقت اگر بچ جائے تو آپ اس وقت کو ترقی میں استعمال کر لیں گے لیکن
بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
ایک
مشہور واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اہل قریش سے گفتگو فرما رہے تھے تو
اسی دوران ایک نابینا صحابی آیا اس نابینا صحابی کو وہ توجہ نہیں ملی جو وہ چاہ
رہے تھے بس یہی سوچ کے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مصروف ہیں تو وہ وہاں سے
واپس چلے گئے۔ جب وہ نابینہ صحابی واپس جا رہے تھے تو اللہ کو یہ پسند نہیں آیا
انہوں نے فوراً پیغمبر اسلام تک وحی پہنچائی کہ اس بندے کو بلاؤ اور اس کو اہمیت
دو۔ اس نا بینا شخص کو پوری توجہ سے ملو تاکہ یہ شخص نظر انداز نہ ہو۔ یہ حساسیت کی
بلندی ہے اور جب معاشرے میں اس طرح کی حساسیت کا پیغام دیا جاتا ہے اور وہ بھی پیغمبر
اسلام ﷺ کے ذریعے سے تو وہ معاشرہ یقیناً ترقی کرتا ہے اور اس کو ترقی کرنی بھی
چاہیے۔
ہمارے
پرائمری سکول میں ہماری ایک استانی تھی جس کا نام فریدہ ملک تھا ۔وہ بچوں کو عزت
اور احترام سے ملا کرتی تھی اور ہم سب اس کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور نہ
صرف یہ کہ ہم اس کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار یا
ان کا بیٹا بھی ہمارے سکول میں آ جائے تو ہمیں اس سے بھی مانوسیت محسوس ہوتی تھی۔ ہماری یہ ٹیچر ہمیں جو بھی مضمون
پڑھاتی تھیں جو کچھ بھی وہ بولتی تھی احساس کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ ہم ان کے جملوں
سے اپنے مستقبل کے خواب جوڑ رہے ہوتے تھے۔ ہم ان کے جملوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے
تھے۔
میرے
نزدیک بنیادی طور پہ استاد کے دو کام ہیں ایک تو حساسیت کی بیداری اور انسانی
جذبات کا احترام یا احترام آدمیت پیدا کرنا۔ اگر کوئی معلم اور کوئی بھی استاد
اپنے بچوں میں حساسیت اور احترام آدمیت پیدا نہیں کر رہا تو وہ کوشش کر رہا ہے کہ
بے روزگاروں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے۔
تیسری
اہم چیز جو ایک معلم دے سکتا ہے وہ ہے ذوق پروازہے یعنی بڑی سوچ
پیدا کرنا اپنے طالب علموں میں۔ جب کوئی
معلم ایسا کام کرتا ہے پھر معاشرے میں ترقی آنا شروع ہو جاتی ہے ۔انسان کی شخصیت میں
بلندی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی حوالے سے علامہ اقبالؒ کا ایک شعر ہے۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
طالب
علموں کو بڑی سوچ دینا بڑی سوچ کا حوصلہ دینا یہ استاد کا کام ہے اور اسی عمل سے
قومیں بنتی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جب آپ معلم حضرات یہ کچھ چیزیں کرنا شروع کر دیتے
ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہیں تو ہمارے بچوں میں مثبت تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور
نہ صرف بچوں میں اور یہی بچے جب معاشرے میں جاتے ہیں تو معاشرے میں بھی نکھار آنا
شروع ہو جاتا ہے۔
ایک
اچھے استاد کے پاس ایک خوبی جو میں سمجھتا ہوں ہونی چاہیے وہ یہ کہ اس کے اندر یہ
صلاحیت ہو کہ وہ بچوں کے خوف کو شوق میں تبدیل کر دے۔ جب کسی استاد کی وجہ سے طالب
علم کی قوت محرکہ(Motivation)
بیدار ہوتی ہے تو اس دن سے اس کی ترقی کا آغاز شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ لندن میں ایک
سکول ہے جس کا نام “Harrow”
ہے اس نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے ہیں وزیراعظم, جنرلز ,کرنلز اور سائنٹسٹ جن میں سے ایک
ونسن چرچل بھی تھا۔ ان سکولوں میں یا ایسے
اور کئی سکولوں میں میں نے جو چیزیں مشترک دیکھی ہیں وہی چیزیں ہیں جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں۔ ایسے سکول
بچوں میں شوق بیدار کرتے ہیں ان کے اندر حساسیت پیدا کرتے ہیں ان کی سوچ کو بڑا
کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو احترام ادمی سے کھاتے ہیں۔ ونسٹن چرچل کہتا ہے کہ
مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد کامیابی کا جو احساس ہے وہ اصل کامیابی ہے۔ اب یہ وہ اہم چیز ہے جو بچوں میں سکول کو پیدا
کرنی چاہیے کہ جدوجہد کا جذبہ دیا جائے کہ ایک کوشش کافی نہیں ہے مسلسل کوششیں
کرتے رہنے سے آپ کو اصل کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے سکولوں میں اس طرح کی چیزیں
نہیں سکھائی جاتی۔ اپنے طلبہ کو بڑی سوچ دینے کے لیے قوت اعتماد دینے کے لیے یہ
لازمی ہے کہ آپ ان کو تذلیل ،تضحیک
، توہین، تنقید اور تمسخر سے محفوظ رکھیں۔
اگر
ہم اپنے سکول میں اپنے بچوں کو تذلیل ،تضحیک ، توہین، تنقید
اور تمسخر سے محفوظ رکھ لیں اور یہ چیز ان کو سکھائیں تو ہمارے بچوں میں ساری خوبیاں
آنا شروع ہو جائیں گی اور وہ آپ دیکھیں گے ایک دن ایک مقام حاصل کر لیں گے۔
علامہ
محمد اقبالؒ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ڈاکٹر عبدالسلام جہلم کے ایک ٹاٹ
والے سکول میں پڑھتے تھے میں کرشن نگر کی گلیوں سے نکلا ،منمون سنگھ جس نے
ہندوستان کو بہت کم وقت میں بڑی ایکانمی بنا دیا۔ ان سب کے اندر خود اعتمادی پیدا
کی گئی ان سب کے اندر بڑی سوچ پیدا کی اور کام اساتذہ نے کیا۔
میں
جب امریکہ میں گیا ہمارے پاس خرچہ نہیں ہوتا تھا ہمارے پاس مواقع نہیں ہوتے تھے
مشکلات کا پہاڑ تھا جن کو ہم نے عبور کیا اور اس کے بعد کامیابی ہمارے سامنے تھی۔
اگلی چیز جو آپ نے اپنے طلبہ کو سکھانی ہے وہ ہے خطرات اٹھانا۔ اگر آپ پر آسائش
ماحول میں رہیں گے تو آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ آپ کو پرخطر راستوں پر آنا پڑتا ہے۔
آپ کو پر آسائش ماحول کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ اپنے سکون اورآسائش کو مارنا پڑتاہے۔
اس
کے بعد جو اہم چیز ہے جو طلباء میں ہونی چاہیے جو اساتذہ کی ذمہ داری ہے وہ بچوں میں
یقین پیدا کرنا اگر آپ کا بچہ خوف میں ہے تو اس کے اندر خود اعتمادی بڑی سوچ پیدا
نہیں ہو گی ۔ کیونکہ خوف بڑی سوچ اور خود اعتمادی کو مار دیتا ہے۔ قوت یقین ترقی کی
چابی ہے۔
اگلی
اہم چیز جو گفتگو میں جو کردار میں ہمیں نظر آنی چاہیے وہ امید ہے ہم نے اپنے بچوں
کو امید دینا ہے اگر بچوں کے اندر امید ہوگی تو کچھ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا لیکن
اگر مایوسی پھیل گئی تو وہ کچھ بھی نہیں کرنے دے گی آپ کو۔
اپنے
بچوں کے لیے یہ سب ہم نے خود کرناہے۔ کوئی تیسر ی قوت یا ملک ہمارے لیے یہ نہیں
سوچ سکتا ۔ یہ کام ہم نے نہ کیا تو ہماری
تعلیم ادھوری اور نا مکمل ہے۔ جس سے
معاشرے نہیں بنتے ۔ اگر اچھا اور معیاری معاشرہ بنانا ہے تو سکولوں سے ہی ہمیں یہ سب کچھ کر نا ہوگا۔
آپ
حضرات کا بہت شکریہ ۔ آپ تشریف لائے۔ آپ
کے ساتھ مل کر بہت اچھا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو یہ تو فیق دے کہ جو کام آپ کر رہے اس پوری انسانیت کی بھلائی سے جڑ
جائے۔ پاکستان زندہ باد۔
Great...
ReplyDelete