نیٹ ورکنگ کا کمال اور ورلڈ بینک کا یادگار واقعہ

Dr. Ali Sajid
0

نیٹ ورکنگ کا کمال اور ورلڈ بینک کا  یادگار واقعہ

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد(تمغہ امتیاز)  کے ساتھ ایک نشست

ترقی یافتہ ممالک کی بہت ساری خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے وہ ترقی یافتہ ہیں۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے جو مغربی ممالک اور سب  ترقی یافتہ ممالک  میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ نیٹ ورکنگ جماعت کے نظام پہ یقین رکھتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ایسا نہیں ہے جنوبی ایشیا میں ٹیم ورک یا نیٹ ورکنگ کے بجائے ذاتی تعلقات کے اوپر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ سفارش مل جائے کسی کی کسی کی پرچی مل جائے اور کسی سے کوئی تعلق نکل آئے اس کی بنیاد پر وہ اپنے کام کرواتے ہیں ان کا نظام ایسے چلتا ہے۔ اور اکثر او قات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی کام کروانے کے لیے غیر اخلاقی چیزیں بھی کرنی پڑتی ہیں اور کسی بھی حد تک گزرنا پڑتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد (تمغہ امتیاز)
 جنوبی ایشیا میں ایسے طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں کاروبار کو بڑھانے کے لیے ترقی کرنے کے لیے یا کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی۔ لازمی نہیں کہ غیر ضروری چیزوں کے لیے صحیح کام کرنے کے لیے بھی ایسےکاموں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے مجھے ایک واضح فرق نظر آیا کہ جنوبی ایشیا کے لوگوں میں نیٹ ورکنگ کا نظام کیوں رائج نہیں ہو سکا۔ آپ یہ یاد رکھیں کہ 21ویں صدی کا دور نیٹ ورکنگ کا دور ہے نیٹ ورکنگ میں جو کامیاب نہیں ہے وہ بالکل بھی کامیاب نہیں ہے کسی بھی شعبے میں۔ 

میں ایک دو واقعات بیان کر کے آپ کو نیٹ ورکنگ کا کمال واضح کرتا ہوں۔ 1992ء اور 93ء  کے سال، میں امریکہ میں تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں کام کرتا تھا ورلڈ بینک میں۔ میں واشنگٹن ڈی سی میں ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرتا تھا۔ میرے ساتھ صومالیہ کا ایک آدمی جس کی عمر تقریبا 55 سال تھی وہ بھی کام کرتا تھا۔ ہم دونوں ایسے ممالک سے تھے جو ابھی ترقی پذیر ہیں۔ ہمارے اکثر مسائل ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ ہماری خوشیوں کا سٹائل ایک جیسا تھا ۔ہمارے غم ایک جیسے تھے اور ہمارے اندر جو محرومیاں تھیں وہ بھی تقریباً ملتی جلتی تھیں۔ اتنا مشترک ہونے کے بعد ہمارے اندر ایک ہمدردی پیدا ہو گئی ایک دوسرے کے لیے ہمارے ایک اچھے تعلقات   قائم ہو گئے۔ اس سے دوستی ہو گئی ہم اکٹھے بیٹھ کر گفتگو کیا  کرتے تھے چائے پیتے تھے اور وقت گزارتے تھے فرصت میں۔ ایک دن  اس  نے مجھے بتایا کہ دو ہزار ڈالر دے کر وہ گولف سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی میں نے کہا اب تمہاری عمر ہو چکی ہے کافی وقت گزر چکا ہے۔ تو اب اس عمر میں تمہیں گولف سیکھنے کا شوق کیوں پیدا ہو گیا؟۔ میں نے کہا تم نے اس کے لیےدوہز ڈالر بھی خرچ کر دیے ہیں  یہ تو تم نے بالکل اپنے پیسے ضائع کر دیے ہیں ۔ میری یہ بات سننے کے بعد اس نے کہا کہ بالکل ایسا نہیں ہے۔ میرے دو ہزار ڈالر ضائع نہیں ہوئے اس سے مجھے بہت سارا فائدہ ہوگا۔ وہ کہتا ہے اس پہ میرا جتنا بھی خرچہ ہوگا وہ میری کاروباری سرمایہ کاری ہے۔ میں نے یہاں پہ انویسٹ کی ہے اور اس سے مجھے نتائج جائیں گے۔ میں نے کہا تمہاری یہ کس طرح کی انویسٹمنٹ ہے ۔تو اس پر اس نے جواب دیا کہ یہ میری نوکری کی انویسٹمنٹ ہے۔ یہ میرے کام کی انویسٹمنٹ ہے۔  وہ کہتا ہے کہ میرے ورلڈ بینک کے جتنے بھی سینیئرز ہیں جنہوں نے ہر سال میرے کنٹریکٹ کو رینیو کرنا ہوتا ہے وہ ہر روز گولف کلب میں ہوتے ہیں اور وہاں پر وہ گولف کھیلتے ہیں۔ اور میں جب گولف کلب جاتا ہوں ان کے ساتھ وقت گزارتا ہوں گولف کھیلتا ہوں تو میری ان کے ساتھ دوستی بن رہی ہے۔ ایک سال کے بعد یہ لوگ دوستی میں میرا کنٹریکٹ  بڑھا  دیں گے مجھے اس سے بہت فائدہ ہوا۔ اس واقعہ کے تناظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نیٹ ورکنگ کے اوپر کتنا کام ہوتا ہے۔ اپر کلاس میں جانے کے لیے بہت سارے طریقے کار اختیار کرنے پڑتے ہیں اور نیٹ ورکنگ کا حصہ بننے کے لیے بہت  کوشش ہوتی ہے کیونکہ نیٹ ورکنگ کے بغیر وہاں پہ کام نہیں ہوتے۔ میں اس کے مثبت اور منفی پہلو کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہتا میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نیٹ ورکنگ اتنی اہم ہے کہ ہر شخص کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی نیٹ ورک میں آئے گا تو اس کا کوئی کام ہوگا اور اس نے اگر ترقی کرنی ہے تو نیٹ ورکنگ اس کے لیے بہت ضروری ہے انفرادی طور پہ کچھ نہیں ہو سکتا سفارش کی بنیاد  پہ کچھ نہیں ہو سکتا اور پر چی کی بنیاد پر آپ کوئی  کام نہیں کروا سکتے وہاں پہ آپ کو نیٹ ورکنگ کا ایک حصہ بننا پڑتا ہے۔ اب یہ ہے کہ نیٹ ورکنگ کا حصہ بننے کے لیے اگر اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھیں تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہے ۔ اگر غیر اخلاقی حرکات غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہو جائیں اور ایسے کام کریں جو غیر اخلاقی ہیں تو پھر یہ کلچر ہی غلط ہو جاتا ہے۔ 

ایک لاہور کا واقعہ ہے غالبا 2003ء یا2002ء کا واقعہ ہے کہ میں لاہور جم خانہ میں چائے پی رہا تھا۔ اسی دوران مجھے ایک شخص ملا میں نے کہا آپ یہاں پہ کیا کرتے ہیں اس نے کہا میں اکثر یہاں پہ آتا ہوں اور یہاں پر بیٹھ کے چائے پیتا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اکثر کیوں آتے ہو؟ میں تو کبھی کبھار یہاں پہ آتا ہوں تو اس پر اس نے جواب دیا وہ کہتا ہے کہ میں یہاں پہ روزانہ باقاعدگی سے اس لیے آتا ہوں کہ میں ایک آٹو موبائل کی کمپنی میں کام کرتا ہوں اور اس کے  افسران اکثر اسی جم خانہ میں آتے رہتے ہیں۔ تو میرے ان کے ساتھ ریلیشن بنتے ہیں۔  میں ان کے ساتھ وقت گزارتا ہوں گولف  اکٹھا کھیلتے ہیں اور ان کی میں نظروں میں رہتا ہوں تو اس طرح سے یہ ہوتا ہے کہ انہیں اعتماد ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ  کروڑوں کے کنٹریکٹ ہمیں دے دیتے ہیں اس سے ہمارا بہت سارا کام آسان ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ چاہے امریکہ ہو چاہے پاکستان ہو نیٹ ورک بنانے کے مثبت پہلو بھی موجود ہے اور اس کی اہمیت بھی موجود ہے۔ 

ہم جب بھی کسی بین الاقوامی نمائش پہ جاتے تھے پاکستان کے لوگ انڈیا کے لوگ اور جنوبی ایشیا کے لوگ تو ان سب میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ اکثر کھانے کے مقابلے میں چلے جاتے تھے۔ اور اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ اکثر جو کھانے میں مشغول ہیں وہ تو کھانے پر ہی غور کر رہے  ہوتے تھے ۔  لیکن جو سمجھدار لڑکے لڑکیاں تھیں وہ کھانا صرف بہانے کے لیے کھاتے تھے وہ زیادہ تر لوگوں سے مل کر ان کو اپنا کارڈ ایکسچینج کرتے تھے ریلیشن بناتے تھے تعلقات بناتے تھے تاکہ بزنس آگے بڑھے ان کی ڈیویلپمنٹ ہو ان کا نیٹ ورک بنے۔ ان کا کہنا ہوتا تھا کہ دو چار ڈالر کا کھانا کھانے سے بہت بہتر ہے کہ آپ لوگوں سے نیٹ ورکنگ کریں اور آپ لاکھوں کا بزنس  بنائیں کریں۔ تو سمجھدار جنوبی ایشیا کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ بڑی بڑی نمائشوں پہ جاتے ہیں کھانا نہیں کھاتے لوگوں سے ملتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہوتے تھے اور لوگوں کو متاثر کر کے نئی جابز لے رہے تھے نئے مواقع ڈھونڈ رہے ہوتے  تھے۔ 

جتنے بھی واقعات میں نے آپ کو بتائے ہیں ان کا حاصل یہ ہے مجھے یہ محسوس ہوا کہ نیٹ ورکنگ آپ کے ترقی کے لیے بہت ضروری ہے آپ کو چاہیے کہ آپ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے نیٹ ورکنگ پہ غور کریں۔ اس پہ اپنا وقت لگائیں اپنی انرجی لگائیں اور جہاں تک ہو سکے نیٹ ورکنگ میں اضافہ کرتے جائیں۔ نیٹ ورکنگ کا ایک اصول ہے کہ آپ اس طبقے میں موجود رہیں لیکن اس طبقے کی اخلاقیات کو مجروح نہ کریں۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ آنکھ او جھل پہاڑ اوجھل اگر آپ لوگوں کی نظروں میں نہیں ہیں تو اپ نیٹ ورکنگ میں نہیں ہیں۔

 

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !