آدمی کی کامیابی کے پیچھے سیلف موٹیویشن کا کردار

Dr. Ali Sajid
0

آدمی کی کامیابی کے پیچھے سیلف موٹیویشن کا کردار 

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد(تمغہ امتیاز)  کے ساتھ ایک نشست

کوئی بھی آدمی جب اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کے اندر سیلف موٹیویشن خود اعتمادی کا جذبہ ہوتا ہے۔ جس شخص کے اندر سیلف موٹیویشن ہوتی ہے خود اعتماتی ہوتی ہے وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتا ہے۔ اس کے حوالے سے بہت ساری مثالیں میں آپ کی خدمت مین  پیش کرنا چاہوں گا۔ آپ کے سامنے نیلسن منڈیلا کی بہترین مثال موجود ہے جس نے خود اعتمادی سے،  سیلف موٹیویشن سے کتنا کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا۔

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد (تمغہ امتیاز)

اس حوالے سے آپ مہاتیر محمد کی مثال دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے سنگاپور کے بانی اور وزیراعظم مسٹر لیکوان کی بہترین مثال موجود ہے۔ یہ سارے آپ تقریبا عمر رسیدہ ہیں اسی یا نوے  سال کی عمر میں بھی بڑے جذبے سے کام کر رہے ہیں۔ اب اس کے نتائج دیکھیں کہ 1991 ءمیں 91 سال کی عمر کا شخص ملائشیا کا وزیراعظم بن گیا۔ جس کا نام مہاطیر محمد ہے۔ اب اس کو کس چیز نے اس مقام تک پہنچایا موٹیویشن نے۔ اس کے اندر سیلف موٹیویشن کا جذبہ موجود ہے حالانکہ  اب دیکھیں انرجی نہیں ہے  لیکن موٹیویشن موجود ہے ان کے اندر۔  ایک شعر عرض کروں گا اس حوالے سے وہ کسی نے کہا ہے

گو ہاتھوں میں جنبش نہیں گر آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ساغر و مینا میرے آگے

میں صرف مثال کے طور پہ یہ بتا رہا ہوں کہ سیلف موٹیویٹڈ (پر جوش ) لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ان کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد رہنا چاہیے وہ کسی بھی مقصد کو اپنے سامنے سے نہیں ہٹانا چاہتے۔ ایسے ہی لوگ دنیا میں کچھ کرتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں آنے والے افراد کے لیے آسانیاں پیدا کر کے چلے جاتے ہیں۔ خود تکلیف اٹھا کے اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال کے کچھ ایسا کر جاتے ہیں جس سے آنے والے لوگوں میں آسانیاں ہی آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے قدرت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان لوگوں کو دوام بخشنا ہے۔ اب اس دوام کی وجہ ان کا اپنے کام سے عشق۔ حضرت بلال حبشی ایک غلام تھے جو اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سائے میں ائے۔ حضرت بلال حبشی کی ایک خصوصیات کہ ان کو پیغمبر اسلام کی ذات سے عشق تھا اور کسی بھی ذات سے عشق اس کی شخصیت کو دوام دے دیتا ہے قدرت انہی لوگوں کے لیے دوام بخشتی ہے۔ 

اس حوالے سے علامہ محمد اقبال ؔایک شعر میں کہتے ہیں کہ 

اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

کہ رومی فنا ہوا اور حبشی کو دوام ہے

دوام کا مطلب ہے وہ شخص نسلوں تک لوگوں کو یاد رہتا ہے ۔  وہ شخص دلوں میں راج کرتا ہے نسل در نسل اس کو لوگ یاد رکھتے ہیں۔ دوام کے لیے شکل و صورت نہیں چاہیے دوام کے لیے مال و دولت نہیں چاہیے دوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کو کسی کی ذات سے عشق ہو ۔آپ کو کسی کام سے عشق ہو آپ کو کسی نظریے سے عشق ہو۔ اس کا نیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے۔ آپ نے یقینا ًیہ حدیث سنی یا پڑھی  ہوگی کہ 

"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"

غالباً ایک واقعہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے لاکھوں احادیث جمع کی اور انہوں نے غالباً اپنے بیٹے یا اپنے شاگردوں کو بتایا کہ ان احادیث میں سب سے پسندیدہ احادیث ان کی یہی ہے کہ

"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"

سیلف موٹیویشن کی مثال  ایک چلتی ہوئی گاڑی کی طرح ہے اگر چلتی رہے تو آسانی سے آگے سے آگے  بڑھتی رہتی ہے اور اگر یہ رک جائے تو یہ دھکا سٹارٹ ہو جاتی ہے۔ میں نے بہت سارے لوگ دفتروں میں کام کرتے ہوئے دیکھیں ہیں ۔  ایک لڑکی میرے دفتر میں آتی تھی روزانہ باقاعدگی کے ساتھ،  تو میں نے اس پہ غور کر کے دیکھا کہ وہ روزانہ آتی ہے لیکن اس کے کام کی   بہتری نظر نہیں آرہی کچھ نتائج نہیں نظر آ رہے۔ میں جب اس سے ملا تو مجھے نظر آیا کہ وہ دھکا سٹارٹ ہے ۔اس کو دھکا دینا پڑتا ہے۔ سیلف موٹیویٹڈ نہیں ہے خود کار طریقے سے کام نہیں کرتی اس کو کوئی کہے کوئی اسے موٹیویٹ کرے پھر جا کے وہ کام کرنا شروع کرتی ہے ۔ایسے لوگ کامیاب نہیں ہوتے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ خود کار آدمی ہمیشہ ترقی کرتا ہے۔ جس کو سیلف موٹیویٹڈ پرسن کہتے ہیں۔ انسان کو اس کا جذبہ، اس کا شوق ،اس کی تڑپ، اس کے اندر کی آگ اس کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے اس کو اونچے عہدے پر فائز کرتی ہے۔ جب کسی کے اندر سیلف موٹیویشن پیدا ہوتی ہے تو وہ بڑھاپے میں بھی جوان ہو جاتا ہے۔ ایک شعر ہے اس حوالے سے کہ

جب عشق سکھاتا ہے اداب خود اگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار بادشاہی

ایسے لوگوں کے اوپر قدرت اپنے راز افشا کر دیتی ہے۔ قدرت دنیا پر حکومت کرنے کے راز انہیں بتا دیتی ہے، لیکن اندر تڑپ ہونا ضروری ہے ،اندر جذبہ ہونا ضروری ہے کچھ کر گزرنے کا عشق ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے ان پڑھ لوگوں کو بھی یہ شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ اور آپ یہ یاد رکھیں کہ عشق جسم سے بڑھ کر ہے۔ علامہ محمد اقبال ؔ عشق کے حوالے سے فرماتے ہیں

عشق دل مصطفیٰ، عشق دم جبرائیل

عشق خدا کا رسول ،  عشق خدا کا کلام

عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تاب ناک

عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پہ حرام

علامہ  محمد اقبالؒ یہ کہنا چاہتے ہیں یہ یاد رکھیں کہ عشق کو موت نہیں آتی عشق کو دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ اور  جو لوگ اپنے کام سے عشق کرتے ہیں اپنی منزل سے عشق کرتے ہیں اپنے راستے سے عشق کرتے ہیں اپنی جدوجہد سے عشق کرتے ہیں اپنی کوشش  سے عشق  کرتے ہیں۔ 

اس سے بڑی مثالیں میں نہیں دے سکتا کہ جناب بلال حبشی رضی اللہ  عنہ نے عشق کیا کسی کی ذات سے دوام حاصل ہو گیا جناب اویس قرنی رضی اللہ عنہ  نے عشق کیا اب دیکھ لیں آج تک زندہ ہیں ان کا نام حضرت عمار یاسر نے عشق کیا آج تک ان کا نام زندہ ہے ۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !