کامیابی یا ناکامی کی وجوہات

Dr. Ali Sajid
0

                                         کامیابی یا ناکامی کی وجوہات

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد(تمغہ امتیاز)  کے ساتھ ایک نشست

میں نے کئی مرتبہ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پی ایچ ڈی پروفیسر حضرات کو ان کے غلط اور منفی رویے اور منفی سوچ کی وجہ سے ان کو ادارے سے  نکال دیا۔ ان کو یونیورسٹی سے اداروں سے اس لیے نکالا گیا کہ ان کی سوچ منفی تھی ان کا رویہ غلط تھا۔ تنگ نظری اور انا پرستی ان میں تھی۔ 

ڈاکٹر علی ساجد (تمغہ امتیاز)

حالانکہ ہم نے ایسا رویہ بھی دیکھا ایسے پڑھے لکھے پروفیسر حضرات میں کہ وہ اپنے طلبہ کو لڑکے اور  لڑکیوں کو لاتیں مار رہے تھے۔ تفتیش کے بعد جب یہ بات ثابت ہو گئی تو ہمیں مجبورا ًانہیں وہاں سے نکالنا پڑا۔ اس حوالے سے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس حد تک منفی سوچ اور رویہ بہت خطرناک ہوتا ہے یہ قابل برداشت نہیں ہوتا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ  پروفیسر حضر ات پورے پاکستان میں بلیک لسٹ ہو گئے۔ 

ایک مثبت رویہ ہے صبر اور تحمل کا یہ آپ کو بلند کرتا ہے۔  آپ کا مرتبہ آپ کی شخصیت کو بڑا کر دیتا ہے۔ میں آپ کو مختصر طور پر  اس کے بارے میں صرف ایک سادہ سا جملہ کہہ سکتا ہوں کہ جس کے اندر برداشت اور تحمل ہے وہ آسانی سے ہار نہیں سکتا۔ اس حوالے سے میں آپ کو مفید مشورہ دینا چاہوں کہ آپ کوشش کریں ممکنہ طور پر اپنے اندر ہر سال کم از کم 10 فیصد تحمل اور برداشت میں اضافہ کریں۔ اور جب دس سال بعد یہ سو فیصد تک آپ کے اندر نظر آنا شروع ہو جائے گی تو  لوگ حیران ہو نگے کہ اس کی شخصیت میں یہ تبدیلی آئی کیسے؟۔ اور آپ کو غیر محسوس انداز میں یہ نظر آئے گا کہ آپ کا ادارہ آپ کا گھر ترقی کرنا شروع ہو گیا ہے صرف اسی خصوصیت کی وجہ سے۔ گھر میں خوشحالی آنا شروع ہو جائے گی آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا شروع ہو جائیں گے آپ کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اور یہ خود بخود ہوتا رہے گا۔

اور برداشت کے حوالے سے میں ایک آیت کا ترجمہ پیش کرنا چاہوں گا کہ 

"جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اللہ تعالی ایسے نیک لوگوں کو پسند فرماتے ہیں"

یہ سورہ آل عمران کی 135 ویں آیت ہے۔

میرے پاس جب مختلف یونیورسٹیز میں کام کرنے کے دوران اختیارات آئے تو ایسے افراد بھی میرے پاس آئے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے میرے ساتھ ناانصافی کی تھی زیادتی کی تھی یا منفی رویے کا اظہار کیا تھا۔ تو ایسے موقع پر میں نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ان کے مسائل سنے ،بجائے کہ میں انتقام لیتا میں نے سنت ِ محمد ﷺ کے اوپر عمل کرتے ہوئے ،میں نے ان کی حمایت کی اور ان کے ساتھ ہمدردی کی اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ میں نے ان لوگوں سے انتقام نہیں لیا میں نے ان کو دل سے معاف کر دیا۔ اور شاید یہی وجوہات تھی کہ اللہ نے مجھے اور زیادہ نوازنا شروع کر دیا۔ اور اگر ایسے موقع پر ایسا ہوتا میں لکیر کا فقیر ہوتا میں بھی روایتی انداز میں ان سے انتقام لیتا تو آپ یقین جانیں میرا ان کے ساتھ ایک انتقام والا سلسلہ شروع ہو چکا ہوتا اور آج تک میں عدالتوں میں  انکوائریاں بھگت رہا ہوتا ۔ اسی دوران مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ اخبار میں یہ خبر آئی کہ مجھے  تمغہ امتیاز سے نوازا گیا  ہے ۔ حالانکہ میں کسی بھی حکومت کی غلط کاروائیوں کے اوپر میں تنقید کرتا رہتا ہوں۔ 

میں آپ کو ایک ہدایت دینا چاہوں گا کہ آپ قرآن کی اس آیت کو جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ خدا تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے تو یہ آپ کی زندگی کو تبدیل کر دے گا۔ اور میں چاہوں گا کہ آپ اس آیت کو غور سے پڑھیں ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور ممکن ہو تو اپنے دفتر کے سامنے میز پر یا  کہیں پر بھی اس کو نقش کر دیں تاکہ یہ آپ کی زندگی کا معمول کا حصہ بننا شروع ہو جائے۔ تحمل اور برداشت کی مثال آپ کو یاد ہوگی کہ حضرت علی کے اوپر ایک شخص نے تھوکا تھا تو حضرت علی نے فوراً اس کو چھوڑ دیا اس سے انتقام نہیں لیا غصے کا اظہار نہیں کیا۔ 

 میں آپ کو ایک بہت  تلخ حقیقت بتاؤں کہ پاکستانی لوگوں کے مزاج میں انا پرستی اور سخت مزاجی ایک ایسا غلط پہلو ہے جس کی وجہ سے ہم بہت نقصان اٹھا چکے ہیں پاکستان دو ٹکڑے ہو چکا ہے اور اللہ کرے دوبارہ ایسا نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر  آپ نے اگلی نسل کو بچانا ہے تو سکول سے ہی بچوں کو یہ سمجھا دیں کہ اپنے اندر انا پیدا نہیں کرنی اپنے اندر تلخ مزاجی پیدا نہیں کرنی، ضدی پن اپنے اندر نہیں لانا۔ کہا جاتا ہے کہ جتنی انا ہوگی اتنا ہی علم آپ کے اندر مائنس ہوتا جائے گا۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !