گجرات کے گاؤں سے کامیابی تک سفر (پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز کے ساتھ نشست)

Dr. Ali Sajid
0

گجرات کے گاؤں سے کامیابی تک سفر

(پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز کے ساتھ نشست)

ڈاکٹر علی ساجد : السلام علیکم ! شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔ 

ہم نےکرونا کے دوران دیکھا کہ شاید پاکستان عوام کے دلوں میں شیطان وسو سے پیدا کر رہا ہے ۔  لوگوں میں مایوسی پھیلا رہا ہے۔  ہم نے سوچا کہ لوگوں میں امیدا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس حوالے سے احمد فراز ؔنے ایک شعر میں کہا تھا کہ 

ظلمت شب سے تو کہین بہتر ہے

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد (تمغہ امتیاز)

میرے خیال میں ہمارے حصے کی شمع یہی ہے کہ لوگوں میں امید کا چراغ جلایا جائے۔ اس کا طریقہ ہم نے یہ اختیار کیا کہ  ہم نے چیدہ چیدہ شخصیات کا انتخاب کیا ان کا آن لائن انٹر وئیو کر رہے ہیں تا کہ ان کی کامیابی کی کہانی لوگوں تک پہنچے۔ ہم ایسے لوگوں کا انٹرویو کر رہے ہیں جو سوسائٹی کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پروفیسر ہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو شاعر ہیں ادیب ہیں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں بیوروکریٹس ہیں اور ملکی سفیر ہیں وغیر۔ ان لوگوں نے اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے معاشرے کو چینج کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

آج ہماری خوش قسمتی ہے یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز کے سابقہ وائس چانسلر سے ہماری گفتگو ہو رہی ہے ہم ان سے جانیں گے ان کی کامیابی کی کہانی۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: السلام علیکم پروفیسر محمد احمد نواز صاحب۔

پروفیسر محمد احمد نواز: وعلیکم السلام ڈاکٹر صاحب۔ آپ کا بہت شکریہ۔

ڈاکٹر علی ساجد: ہمیں یاد ہے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کو ہمارے بچپن کے دور میں گھوڑا ہسپتال کہا جاتا تھا۔ اس میں صرف ایک دو پروگرامز ہوا کرتے تھے۔ لیکن آپ نے محنت کر کے اس میں ایسا جادو بھر دیا کہ اب اس میں درجنوں پروگرامز ہوتے ہیں اور  اب دنیا کی ایک بہت بڑی یونیورسٹیز میں اس کا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ نے آغاز کہاں سے کیا اور کیسے سفر طے کیا؟

پروفیسر احمد نواز: میری پیدائش گجرات کے ایک گاؤں کالرا کلاں میں  1945ء میں ہوئی ۔ میں نے پرائمری سکول کی تعلیم اسی علاقے  کے ایک  مقامی سکول سے کی۔ پرائمری سکول میں ہم چٹائیوں کے اوپر بیٹھا کرتے تھے۔ اور ہمارے گاؤں کا جو ماحول تھا وہ بالکل دیسی ماحول تھا۔ سکول کا ماحول بہت ہی سادہ ہوا کرتا تھا ہمیں یاد ہے کہ ہم سکول مار کھانے کے لیے آتے تھے اور مار کھا کے چلے جایا کرتے تھے۔ کبھی ٹاٹ نہیں بھی ہوتے تھے تو ہم زمین پر بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جنہوں نے بھی اس دور میں اپنے اساتذہ سے مار کھائی ان سب کو فائدہ ہوا آج وہ کسی نہ کسی مقام پر ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ہائی سکول نہیں ہوا کرتا تھا۔ پانچویں کا امتحان جب پاس کیا تو ہائی سکول جانے کے لیے ہمیں ہمارے گاؤں سے کچھ میل کے فاصلے پر ایک ہائی سکول تھا وہاں جانا پڑا۔ سردی ہو یا  گرمی  ہم روزانہ سکول پہنچ جایا کرتے تھے ۔ جب گھر واپس آتے تھے ابو نے جانور رکھے ہوتے تھے ان کو چارہ ڈالنا ہوتا تھا۔ گاؤں کے ماحول میں ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم آج کہاں کھڑے ہیں اور مستقبل ہمارا کیا ہوگا؟۔  ہمارے گاؤں کا معمول تھا اور زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ اسی معمول میں ہمیں جانوروں سے بھی بڑا گہرا واسطہ رہتا تھا جانوروں کا مجھے شوق بھی تھا۔ میں نے ایک دنبہ پالا ہوا تھا. ایک دفعہ کسی وجہ سے اس دنبے کو غصہ آیا اور اس نے مجھے ٹکر مار دی مجھے۔ بھی غصہ آیا اور میں نے ا اس دنبے کو مارا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس جانور کو اتنا احساس ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات ایسے ہوئے کہ مجھے بعد میں بہت دکھ ہوا۔ مجھے احساس ہوا کہ جانوروں کے اندر بھی دل ہوتا ہے ۔ وہ بھی چیزوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ہماری ایک بھینس تھی کسی وجہ سے میرے والد صاحب نے وہ بھینس بھیج دی بھینس کے پیچھے پیچھے میں چل پڑا۔خریدار بھینس کو قصاب خانے کی طرف لے جا رہے تھے ۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ بھینس بیچنے کو میرا دل نہیں مان رہا تھا۔  میرے والد صاحب بھی مجھے دیکھ رہے تھے ۔  میں نے وہاں پہ یہ احتجاج کیا کہ میں نے یہ بھینس نہیں بھیجنی تو میرے والد صاحب نے بھی میرے جذبات کا خیال رکھا اور وہ بھینس زیادہ مہنگے داموں خرید کر پھر واپس لےآئے۔

 میں نے ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد میں لاہور آگیا۔ میرے سب سے بڑے بھائی مرحوم وہ واپڈا میں انجینئر تھے۔ میں اپنے بھائی کے پاس چھٹیاں گزارنے کے لیے لاہور  پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے پڑوس میں ایک ویٹرنری ڈاکٹر رہتے ہیں۔ وہ بڑے شاہانہ انداز میں رہتے ہیں۔ گاڑیوں میں آتے  جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں ان کے پاس گیا۔ ان سے  اس شعبے  کے بارے میں معلومات لی۔ میں نے پھر فیصلہ کیا کہ میں نے بھی  اسی شعبے میں رہنا ہے۔ میری والدہ مرحومہ کا انتقال 1960ء کو ہوا۔ میری والدہ کا یہ خیال تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ جب میں ڈاکٹر بنا تو وہ اس وقت دنیا چھوڑ چکی تھی۔1960ء  کومیں ویٹرنری کالج لاہور میں آگیا۔  اس وقت گھوڑا کالج میں ساڑھے چار سال کی بیچلرز کی ڈگری ہوا کرتی تھی ۔ اس وقت وہ یونیورسٹی آف پنجاب سے منظور شدہ تھی۔ ہمارے امتحان پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ہوا کرتے تھے۔ الحمدللہ 1965 ء کو میں نے وہاں سے ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ماسٹر کی ڈگری کے لیے میں ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد چلا گیا۔1968ء کو میں نے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ جب میں لاہور میں پڑھتا تھا اس وقت میں کوئی بہت اچھا طالب علم نہیں تھا ۔بس پاس ہو جایا کرتا تھا اور یہ بھی  بڑی خوش قسمتی کی بات ہوا کرتی تھی کہ جو بھی سالانہ امتحان میں پاس ہو جائے اس کے لیے مواقع بہت زیادہ ہوتے تھے۔ جب میں فیصل آباد یونیورسٹی میں پہنچا تو میرے اندر بہت ساری تبدیلیاں آئیں۔ ہمارے پروفیسر منظور احمد صاحب تھے جو یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز کے پہلے وائس چانسلر بنے۔ جب میں پروفیسر صاحب کے پاس پڑھنے کے لیے گیا تو ان کے اندر ایسی خصوصیت تھی کہ وہ طالب علم کے اندر دیکھ لیتے تھے کہ ان کے اندر کون سی خصوصیات پوشیدہ ہیں ۔جو طالب علم پر واضح نہیں ہوتی تھی۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ ایک موضوع کے اوپر میں نے تحقیق کی اور جواب میں میں نے وہ نقاط کی صورت میں لکھ دیا۔ ان میں سے کچھ سے نقاط اضافی  تھے ۔ پروفیسر منظور صاحب نے میرا پیپر دیکھا اور میری ریسرچ کو سراہتے ہوئے شا باش لکھ  دیا اور میرے سوال کا پہلا حصہ بنیادی حصہ غلط تھا ۔اس میں سے انہوں نے نمبر کم  کر دیا مطلب وہ ریسرچ کو سراہتے تھے۔ اور یہی ان کی خصوصیت تھی۔ ان کی اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے اچھے نمبروں میں ماسٹر ڈگری حاصل کر لی۔

جب 1968 ءکو میں نے امتحان پاس کیا تو پروفیسر منظور صاحب چاہتے تھے کہ میں فیصل آباد یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں آ جاؤں۔ لیکن میرے لیے کچھ دشواریاں تھیں گھریلو مسائل تھے۔ جس کی وجہ سے میں وہاں پہ نہیں جا سکتا۔ میرے بڑے بھائی جو واپڈا میں انجینئر تھے ان کا تبادلہ اس وقت خیرپور میرس میں ہو گیا تھا۔ مجھے وہیں پر جا کر رہنا پڑا۔ میں کچھ عرصہ اسی علاقے میں رہا اسی دوران میرے کچھ ایسے کلاس فیلو تھے جو بلوچستان میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ تم ہمارے قریب آئے ہوئے ہو تو ہماری طرف آ جاؤ۔ دوستوں کے کہنے پر میں خیرپور سے کوئٹہ چلا گیا انہیں ملنے کے لیے۔ اس وقت ٹرین سے جانا بہت آسان تھا تو میں ٹرین کے ذریعے وہاں کوئٹہ سے گیا۔ جب میں دوستوں سے ملنے کے لیے کوئٹہ گیا تو انہوں نے کہا کہ آج کل  اگر تم کچھ نہیں کر رہے تو ہم یہاں پہ تمہیں  نوکری دلوا دیتے ہیں ۔میں نے سوچا مناسب ہے۔ میں نے حامی بھر لی۔ میرے ان دوستوں نے ڈائریکٹریٹ میں میری درخواست جمع کروائی اور میری جوائننگ کا لیٹر بھی مجھے مل گیا۔ مجھے خط ملا کہ سبی میں ،میں بطور ویٹرنری ڈاکٹر منتخب ہو چکا ہوں۔

 یہ جاننا بہت دلچسپ ہے کہ سبی پاکستان کا سب سے گرم ترین شہر ہے۔ جوائننگ کے لیے جب میں سبی پہنچا تو وہاں پہ ہمارےسینئر راجہ قیوم صاحب  تھے ۔ان سے میری ملاقات ہوئی۔ اس دوران وہ ویٹرنری  ہسپتال کے انچارج تھے۔ وہ ایک بہت بڑے گھر میں رہتے تھے۔ 

راجہ قیوم صاحب نے مجھے یہ پیشکش کی تم میرے ساتھ ہی یہیں پہ رہ جاؤ۔ مجھے بہت مناسب لگا۔ میں وہیں پہ رہنے لگا۔ سبی میں گرمیوں کے دوران گرمی سے بچنے کے لیے ہم نے تقریبا دو فٹ ریت بچھائی ہوتی تھی۔ تین چار پنکھے لگائے ہوتے تھے۔ اور بہت سارے دوسرے انتظامات کیے ہوتے ہیں پھر جا کے ہمارا گزارا ہوا کرتا تھا۔ وہاں کا درجہ حرارت  50  ڈگری سے بھی  اوپر چلا جاتا تھا۔ پانی کو ہم گھر کے اندر رکھتے تھے تاکہ ٹھنڈا رہے۔ سبی میرا جتنا وقت گزرا وہ یادگار رہا۔ میں جانوروں کی ویکسین کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں جایا کرتا تھا۔ مختلف علاقوں کے مقامی لوگوں سے ملاقات ہوتی تھی ۔ان سے تعلق بنتا تھا۔ وہاں پہ سرداری سسٹم ہے۔ ان کے ساتھ معاملات الگ طریقے سے چلانے پڑتے تھے۔ مجھے شروع میں اندازہ نہیں تھا تو اس میں بہت ساری پیچیدگیاں بھی آئیں۔ اسی وجہ  میرا تبادلہ ڈیرہ بگٹی میں کروایا گیا۔  لیکن خوش قسمتی سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے میرا تبادلہ سبی میں واپس کروا دیا اور میں ڈیرہ بگٹی میں وہاں پہ نہیں گیا ۔ 

ڈاکٹر علی ساجد:  نواز صاحب اگر کوئی پوچھے اس دور میں ستارویں گریڈ کی کیا تنخواہ ہوا کرتی تھی؟ 

محمد احمد نواز:  اس وقت ستارویں گریڈ کے آفیسر کی تنخواہ 275 روپے ہوا کرتی تھی۔ ہمیں الاؤنس بھی ملتے تھے تو ہم خوش تھے اپنی تنخواہ سے۔ خرچے کرنے کے بعد ہمیں بہت سارے پیسے بچ جاتے تھے۔ بلکہ جب ہم گھر جاتے تھے تو اپنے تمام رشتہ داروں کے لیے کچھ نہ کچھ سامان لے کر جاتے تھے۔ بلوچستان عظیم روایات کا سنگم ہے۔ اس میں میلے ہوا کرتے تھے۔ اس میں تھیٹر بھی  ہوا کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ لوگ اپنا سامان جانور اور یہاں تک  کے کھڑی فصلیں بھی بیچ دیا کرتے تھے تھیٹر دیکھنے کے لیے۔ میں بتاؤں ڈاکٹر صاحب کہ اس وقت لوگ اتنے غریب ہوا کرتے تھے کہ جب ہم ان سے ملنے جاتے تو وہ کالی چائے پیش کرتے تھے اور ہم مروت میں وہ چائے پی لیا کرتے تھے۔ اب لگتا ہے کہ وہاں پہ حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں لیکن بالکل نہیں۔ میں نے سبی میں رہنے کے دوران جو بھی زندگی کے تجربات حاصل کیے اپنے شعبے کے حوالے سے بھی وہ آج بھی میرا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: اب دوبارہ تعلیم اور تدریس میں کیسے ائے؟

پروفیسر محمد احمد نواز:  1971 ءکے سانحے کے بعد جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو گیا ہمیں اپنے اپنے صوبوں میں واپس بھیج دیا گیا۔ یہاں پر پروفیسر منظور صاحب بھی کوشش کر رہے تھے یونیورسٹی میں کہ میں وہاں پہ مقرر ہو جاؤں۔  وہ سلسلہ مکمل ہو گیا ۔میں بطور پروفیسر یونیورسٹی میں مقرر ہو گیا ۔ جب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رہا تھا۔ اس وقت مجھے کچھ خواب آتے تھے کہ میں لیب میں بیٹھ کے کام کروں گا۔ پروفیسر منظور صاحب کی کوشش سے جب میں ادارے میں منتخب ہوا۔ مجھے پڑھانے کا کام ملا تواس طرح لیب میں بھی  بیٹھنے کا بھی موقع مل گیا ۔ اس طرح میرا خواب پورا ہو گیا۔ 

وہاں پہ ایک واقعہ ہوا کہ پروفیسر منظور صاحب اور میرے ایک ساتھی  تھے ڈاکٹر شعیب صاحب۔ پروفیسر منظور صاحب ہمیں پشاور لے گئے فارسٹ  ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں۔ وہاں پر  انہوں نے  تجربہ کیا کہ خر گوش کا دل نکال کے اپریٹس میں رکھا ۔ وہ دل  کافی دیر تک دھڑکتا رہا۔ ہم وہ سارا منظر دیکھتے رہیں۔ میں ہاسٹل میں رہتا تھا جب ہم واپس آئے پشاور سے تو میں یہ سوچتا رہا کہ یہ اپریٹس میں کہاں سے لاؤں اگر باہر سے منگوائیں گے تو بہت مہنگا پڑے گا۔ تو میں بہت ریسرچ کرتا تھا حق کے پودے کے اوپر میں نے بہت تحقیق کی کتوں کے اوپر اور مختلف جانوروں کے اوپر میں نے بہت ریسرچ کی اور کرتا رہتا تھا۔ وہ اپریٹس جو مجھے چاہیے تھا اس کی میں نے ڈرائنگ بنائی اور ڈرائنگ بنانے کے بعد میں بازار چلا گیا۔ بازار سے میں نے  ایسا  اپریٹس ڈھونڈا اور وہ اپریٹس مجھے کہیں سے مل بھی  گیا۔ واپس آ کے میں نے وہ اپریٹس انسٹال کر دیا۔ اور اس وقت میرا خرچہ اس پر 28 روپے آیا۔ مجھے تھرموسٹیٹ چاہیے تھا۔ میں نے کسی اور اپریٹس کا تھرموسٹیٹ نکال کر اس میں لگا دیا۔ اس طرح کر کے میں نے اس اپنے ٹیسٹ کو بالکل کارآمد بنا دیا تھا۔ لیکن جب میں دل نکال کر ریبٹ کا اس اپریٹس کے اوپر لگاتا تھا تو وہ کام نہیں کرتا تھا زیادہ دیر تک دل نہیں دھڑکتا کرتا تھا۔ اور یہ میرے لیے بڑی حیران کن چیز تھی۔ پروفیسر منظور صاحب کو میں نے بتایا اور ان کی نگرانی میں میں نے یہ سارا اپریٹس استعمال  کیا۔ انہوں نے کچھ غلطیاں نوٹ  کیں اور مجھے بتائیں کہ یہ درست  کر لو تو کام بہتر ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہو۔ پروفیسر منظور صاحب اسی وقت  یونیورسٹی کے ڈِین کےپاس گئے اور انہیں بلایا اور دکھایا کہ یہ بچہ کیا کام کر رہا ہے ۔ سب نے مجھے سراہا اور یہ میرے لیے زندگی میں پہلا موقع تھا جب صدارتی ایوارڈ کے لیے مجھے نوازا گیا۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ جب میں طالب علم تھا ماسٹر کا اس وقت مجھے اس ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1971ء کو میں نے یونیورسٹی  کو جوائن کیا اور 1973ء میں میرے دو بھائی کوپن ہیگن میں رہتے تھے۔ اسی دوران میرے بڑے بھائی پاکستان آئے ہوئے تھے ۔ ان سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں آج کل کہاں مصروف ہوں؟۔ میں نے انہیں اپنی جاب کے بارے میں بتایا اور یہ کہا کہ میں ابھی کچھ سکالرشپ ڈھونڈ رہا ہوں باہر جانے کے لیے۔ تو اسی دوران میرے بھائی نے مجھے پیشکش کی کہ میں ڈنمارک میں کووپن ہیگن آجاؤں۔ ان کے ساتھ اور وہیں پر میں کچھ مواقع تلاش کروں۔ میں نے یونیورسٹی سے چھٹی لی اور بھائی کے ساتھ کوپن ہیگن چلا گیا۔ میں کوپن ہیگن میں مختلف علاقوں میں گیا وہاں پہ مختلف لوگوں سے ملا۔ میں نے کچھ عرصہ ان کے ساتھ کام کیا اور میں نے محسوس کیا کہ میں پیسے تو بنا لوں گا۔ لیکن میرا مقصد پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنا ہے۔  اس وقت میں نے تہیہ کر لیا کہ میں یونیورسٹی جا کر درخواست دے دوں گا۔ میں نے رائل ویٹرنری اینڈ ایگریکلچر یونیورسٹی آف کوپن ہیگن میں داخلہ لے لیا۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی کا وقت بھی میرا شاندار وقت تھا میں نے وہاں سے بہت کچھ سیکھا۔

میں جب کوپن ہیگن کی یونیورسٹی میں گیا اور ریکٹر آف یونیورسٹی کے اسسٹنٹ سے ملا۔ ریکٹر کی اسسٹنٹ نے مجھے ٹائم دیا کہ آپ ایک بجے آ جائیں آپ کی ملاقات  ریکٹر صاحب سے طے ہے۔ جب ریکٹر صاحب سے ملنے کے لیے ٹھیک ایک بجے ان کے آفس پہنچا ریکٹر صاحب کے دفتر کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ ریکٹر صاحب نے خود میرے لیے دروازہ کھولا۔ ریکٹر صاحب نے میرا اوور کوٹ اتروایا اور الماری میں لگا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور میرے ساتھ گفتگو شروع کر دی۔ یہ میرے لیے بہت حیران کن بات تھی کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ خود میرے لیے دروازہ کھولتا ہے اور اتنی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میں نے زندگی بھر اس کو اپنا سرمایہ بنا لیا دل میں۔ انہوں نے میری خاطر ایک بندے کو فون کیا اور مجھے کہا کہ میں تمہارا کام نہیں کر سکتا تم اس بندے کے پاس چلے جاؤ اور وہ تمہارا مسئلہ حل کر دے گا۔ جب میں وہاں سے اٹھنے لگا تو انہوں نے خود میرا اوور کوڈ مجھے پہنایا اور باہر تک میرے ساتھ آئے اور مجھے اگلے بندے سے ملاقات کے لیے راستہ سمجھا دیا۔ اور میرا خیال ہے جو بھی ادارے کا سربراہ ہونا چاہیے اس کی اخلاقیات ایسے ہونے چاہیے۔ ریکٹر صاحب سے ملاقات کے بعد میں ڈائریکٹر آف انسٹیٹیوٹ کے پاس گیا اور وہ میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا نام پروفیسر نکلسن تھا۔ پروفیسر نکلسن نے مجھے سیگریٹ کی پیشکش کی اور یہ ایک بہت بڑی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد پروفیسر نکلسن مجھے ایک پروفیسر صاحب سے ملوانے کے لیے لے گئے۔ ملوانے کے بعد پروفیسر نکلسن صاحب وہاں سے چلے گئے۔ پروفیسر صاحب سے میں نے کافی دیر باتیں کی۔  گفتگو کے دوران انہوں نے یہ دیکھا کہ یہ بندہ پی ایچ ڈی کے لیے مناسب ہے یا نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب نے مجھے کہا کہ ہمارے پاس فناءنس کا مسئلہ ہے اور اگر آپ رضاکارانہ طور پہ یونیورسٹی میں آنا چاہتے ہیں تو آپ یکم اپریل کو آ سکتے ہیں اور کام کا آغاز کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے یکم اپریل 1973 ءمیں منتخب کر لیا۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں یا وہاں کے اداروں میں یونیورسٹی کی تعلیم مفت ہے، آپ کو کوئی پیسے نہیں دینے پڑتے۔میں نے ایک ووپن ہیگن یونیورسٹی میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔  جب کام کرتے کرتے مجھے تین مہینے کا عرصہ ہو گیا اور انہوں نے میری کارکردگی دیکھی وہ میری کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے اور میری تعریفیں کرنے لگے۔ اور دلچسپ یہ بات تھی کہ میں ابھی ان سے کوئی پیسے نہیں لے رہا تھا رضاکارانہ طور پر کام کر رہا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے میری کارکردگی سے متاثر ہو کرWHO کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ  کویہ لکھا کہ یہ ایک بندہ ہمارے پاس ہے جو بہت کام کا ہے۔ اس کو فیلو شپ دی جائے۔ میں نے ایگریکلچر یونیورسٹی میں جتنی بھی ریسرچ کی فارما سیوٹیکل کمپنیز  کی طرف سے اس کا بہت تعاون تھا۔ پاکستانی انڈسٹریز نے ریسرچ کے لیے مجھے لیبارٹریز بنا کر دیں ۔ آپ حیران ہوں گے کہ میرے ریسرچ کے کام کے لیے گورنمنٹ نے کوئی فنڈ جاری نہیں کیا ۔جتنا بھی ہوا پرائیویٹ کمپنیز نے سپورٹ کیا۔ آخری دن میرے پاس تقریباً

 140 ریسرچ پیپرز تھے اور چھ کتابیں تھیں جو میں لکھ چکا تھا۔ اور جب میں ایگریکلچر یونیورسٹی سے نکلا سیکڑوں کی تعداد میں سٹوڈنٹس تھے جو گریجویٹ ہو چکے تھے۔  تقریبا درجن کے حساب سے پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس بھی تھے۔ میں نے وہاں پہ بہت سارا کام کیا۔ اور وہاں کی یونیورسٹی کے وی سیVC کے لیے بھی میں ایک درخواست گزار تھا۔ لیکن سیاسی ماحول کی وجہ سے میں وہ عہدہ حاصل نہیں کر سکا۔2005ء کو میں ریٹائر ہوا اور گھر آگیا۔ 2000ء کو میں ایچ ای سیHEC) (کی طرف سے بطور ریسرچر مقرر ہوا۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: گورنمنٹ آف پاکستان نےآپ کو کون کون سے ایوارڈ زسے نوازا ؟ 

پروفیسر محمد احمد نواز: گورنمنٹ آف پاکستان نے مجھے اعزاز فضیلت سے نوازا۔ ٹیچنگ میں ٹیچنگ ایکسیلنس کا ایک ایوارڈ ہوتا ہے اس سے مجھے نوازا گیا۔ پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پریزیڈننشل شیٹ بھی مجھے ملی تھی۔ 

2005 ءمیں جب میں ریٹائر ہوا اسی دوران یونیورسٹی  آف  ویٹر نری اینڈ اینیمل سائنسز میں وائس چانسلر کی پوسٹ جاری ہوئی ۔ میں نے اس کے لیے درخواست دے دی۔ جب وائس چانسلر کی پوسٹ کے انٹرویو ہو رہے تھے اس وقت میں مصر میں تھا۔ میں ایک کانفرنس کے حوالے سے وہاں گیا ہوا تھا۔ میری مسز بھی بطور ڈین ریٹائر ہو چکی تھی۔ میری مسز یہ چاہتی تھی کہ میں وائس چانسلر کے طور پہ منتخب نہ ہوں کیونکہ میری سرجری ہو چکی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ یہ سکون سے وقت گزار ہیں زیادہ محنت نہ کریں۔ مصر میں دورے کے دوران مجھے فون آیا کہ آپ انٹرویو کے لیے آ جائیں تو میں نے منع کر دیا میں نے بتایا کہ میں ملک سے باہر ہوں انہوں نے کہا کہ آپ کا انٹرویو چلیں آگے ہو جائے گا۔ مصر کے بعد ہم مکہ مکرمہ گئے ایک روز افطاری  کے دوران ہم بیٹھے ہوئے تھے اس وقت میری مسز نے یہ دعا کی کہ یا اللہ اس شخص کو VC بننے کا بہت شوق ہے اس کی دعا قبول فرما۔ اور جب ہم پاکستان واپس آئے تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ کا فلاں دن انٹرویو طے ہے۔ جنرل خالد مقبول صاحب نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا اور میں تین بجے مقررہ تاریخ تک پہنچ گیا۔ گورنر خالد مقبول صاحب نے مجھے خوش آمدید کہا اور یہ مبارکباد دی کہ گورنمنٹ آف پاکستان نے آپ کو یونیورسٹی آف اینیمل ویٹرنری سائنسز کا وائس چانسلر منتخب کر دیا ہے۔ اور یہ سب میرٹ کی بنیاد پر ہوا۔

اگلے ہفتے یونیورسٹی آف اینیملز ویٹرنری سائنسز میں میں نے بطور وائس چانسلر جوائننگ دے دی اور کام شروع کر دیا۔ ہمارا پہلا ریسرچ پروجیکٹس کا جو ایم او یو سائن ہوا وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ساتھ ہوا۔ میں نے یونیورسٹی کے تمام اثاثوں کا حساب لگایا اس وقت ہمارے پاس طلباء ساڑھے چھ سو تک تھے۔ یونیورسٹی کے تمام وسائل دیکھے یونیورسٹی کے تمام فنڈز دیکھے۔ اور اس وقت یونیورسٹی کا صرف ایک ہی ڈگری پروگرام ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر میں ایک چیز عرض کرنا چاہوں گا کہ جاتے ہی میں نے یونیورسٹی میں اپنے بعد آنے والے لوگوں کا انتخاب کرنا شروع کر دیا کہ میرے بعد کون سے ایسے لوگ ہیں جو اس سلسلے کو اگے بڑھا پائیں گے؟۔ لاشعوری طور پہ لیڈر ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اور میں نے ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا کا انتخاب کیا۔ میں نے یونیورسٹی میں نئے پروگرام شروع کیے اور نئی فیکلٹی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ میں نے تمام پروگرامز میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ یہ تمام شعبے اس بات سے منسلک ہوں کہ کس طرح سے ان شعبوں کی مدد سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہو۔ ڈیریز، فشریز اور اس طرح کے شعبے ہمارے ہونے چاہیے اس سے معاش بہتر سے بہتر ہوتی ہے ۔  یونیورسٹی کے پتوکی کیمپس میں جس کو ہم راوی کیمپس بھی کہتے ہیں وہاں پہ بہت سارے فارم ہاؤس بنائے، ڈیری فارم بنایا فشریز کا فارم بنایا پولٹری فارم بنایا اور کتوں کی ٹریننگ اور ریسرچ کے لیے وہاں پہ ایک شعبہ  بنایا اور پرندوں کی ریسرچ کے لیے بھی ہم نے وہاں پہ عملی طور پہ اقدامات کیے۔ میں اس یونیورسٹی میں پانچ سال بطور وائس چانسلر رہا۔ ہے اس دوران یونیورسٹی کی یہ بنیاد بن گئی یہ یونیورسٹی نے طے کر لیا کہ اس نے کس سمت میں جانا ہے کن ریسرچ پروگرامز میں جانا ہے اور ملک کی معیشت میں کیا کردار ادا کرنا۔ الحمدللہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینیمل سائنسز اس وقت دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے جس کے اپنے ریسرچ سینٹرز ہیں۔ 

ڈاکٹر علی ساجد:  ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے گا کہ کرونا کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ چمگادڑ سے یہ وائرس نکلا ہے کیا یہ بات درست ہے آپ کی اس حوالے سے کوئی ریسرچ ہے ۔

پروفیسر محمد احمد نواز:  کرونا کے حوالے سے ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ یہ کہاں سے پھیلا ہے ؟یہ گوشت سے پھیلا ہے یا مچھلی سے پھیلا ہے یا پرندوں سے پھیلا ہے اس کے بارے میں ابھی تک کچھ واضح نہیں کہا جا سکتا؟ البتہ اس کے حوالے سے کچھ پروفیسر اور ڈاکٹر حضرات ہیں جنہوں نے ایسی ویکسین تیار کر لی ہے جس کو ٹرائل کے لیے منتخب کر لیا گیا اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور ان میں سے کچھ ڈاکٹر حضرات کو میں جانتا ہوں ذاتی طور پر۔ میرا ایک طالب علم تھاNUST کا ان دنوں میں میڈیا پر بھی آیا کہ پاکستان کے سائنس دانوں نے بہت ہی سستی کٹ تیار کر لی ہے کرونا کے حوالے سے۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ یہ بتائیے گا میرا ایک عام آدمی کی حیثیت سے ایک سوال ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے ہمارے سائنس دان اس طرف کام کر رہے ہیں کہ وبائی امراض سے پہلے ہمارے اندر کوئی ایسا ڈیفنس میکنزم موجود ہو جو وبائی امراض کے خلاف کام کرے بطور ویکسین ایسا کام ہو رہا ہے؟ 

پروفیسر محمد احمد نواز:  امریکہ کے شہر سیٹل میں 2009ء میں ایک کانفرنس ہوئی "ون ورلڈ ون ہیلتھ "کے عنوان سے۔ جس کا بڑا مقصد بھی یہی تھا کہ تمام سائنٹسٹ کو ڈاکٹرز کو مل کر انسانی صحت کے اوپر کام کرنا چاہیے۔ اور اسی عرصے کے دوران یونیورسٹی آف ویٹرنری  اینڈاینیمل سائنسز میں بھی تین ایسی لیبارٹریز بن چکی ہیں جو اسی مقصد کے لیے کام کریں گی۔ اگر ہمارے سائنس دانوں کو موقع دیا جائے تو یہ بہت سارے نتائج لا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب یہ موقع ہمارے نوجوانوں کو سائنسدانوں کو کون مہیا کرے گا؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد نواز:جب NUSTکے ایک طالب علم نے کرونا کے حوالے سے میڈیکل کٹ بنائی تو اس نے منسٹری Aف ہیلتھ سے رابطہ کیا اور اپنی کاوش دکھائی۔ انہوں نے بہت ساری شرائط لگا دیں جس کی وجہ سے بہت سارا وقت لگ گیا۔ اس کے بعد یہ انتخاب کی سٹیج پر پہنچا۔ ہمارے جتنے بھی بیوروکریٹک چینلز ہیں وہ سارے بہت زیادہ وقت لیتے ہیں۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں جتنا بیوروکریٹک چینل کی وجہ سے سست ہوا ہوں کہیں اور سے نہیں ہوا۔ میرا تو کام کرنے کا یہ انداز ہے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ چیزیں بہت جلد جلد ہوتی جائے۔  

ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب اس مسئلے کا حل بھی بتائیے گا؟ 

پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد نواز:  ڈاکٹر صاحب میرا 1987ء سے یہ خواب تھا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا اور وہ یہ خواب تھا میری خواہش تھی کہ میرا ملک اپنی ویکسین خود بنائے اس کو باہر سے نہ منگوانی پڑے۔ پاکستان اپنی امراض کی تشخیص کے لیے حالات خود بنائیں۔ میں نے یونیورسٹی میں بائیو ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کیا اور اس کے افتتاح کے لیے میں نے شہباز شریف کو بلایا۔ جب میں ان کو ان کو تفصیل بتا رہا تھا اس ڈیپارٹمنٹ کو تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں یہ سب جانتا ہوں۔ مجھے اس وقت محسوس ہو گیا کہ کچھ غلط بات ہوا ہے مجھے یہ بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ صاحب صرف 15 منٹ کے لیے یونیورسٹی میں آئیں گے لیکن انہوں نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ وقت گزارا۔ مجھے ایک بیوروکریٹ نے بتایا کہ آپ موقع پر ان کو یہ تفصیل بتائیں دورے کے دوران۔ میں نے انہیں بریفنگ میں کہا کہ ہمارےکئی  ملین ڈالرز بچیں گے اگر ہم یہ کام شروع  کرتے ہیں اور  کئی ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ ہوگی۔ اس کے بعد کچھ دنوں میں مجھے ایک بیوروکریٹ نے بتایا کہ وہ جگہ جس کے لیے آپ یہ ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاہ رہے ہیں وہ گورنمنٹ کو اپنے کسی اور مقصد کے لیے چاہیے آپ کو یہ جگہ ہم کہیں اور دے دیتے ہیں۔ میں نے اس کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کے بدلے میں میں نے ان سے کہا کہ مجھے ایک زمین دے دی جائے اور پانچ بلین ڈالر بطور انڈومنٹ فنڈ مہیا کیا جائے جو کہ ایسا بالکل نہ ہو سکا۔ زمین دے دی گئی اور ایک بلین ڈالر بھی دیا گیا اور اس کے بعد مجھے دوبارہ اس سیٹ سے ہٹا دیا گیا تاکہ دوبارہ یہ اسی عہدے پر  واپس نہ آئے۔ کرونا کے دنوں میں ،میں نے اپنے دوستوں کا ایک گروپ بنایا واٹس ایپ گروپ اور اس میں، میں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ یہ میرا خواب ہے اور اس خواب کو اب آپ لوگوں نے پورا کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی کے معاملات میں واپس آؤں تو ہم نے اس میں ایک دفعہ یہ بھی سوچا تھا کہ پتوکی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پہ جنوبی پنجاب ،بلوچستان اور دیگر جگہ سے مویشیوں کو لایا جا سکتا ہے اس کے لیے روڈ یا ریلوے لائن بچھائی جائے تو بہت مناسب رہے گا تو یہاں تک ہم سوچتے تھے۔ وہاں پہ ہارس اینڈ کیٹل شو بنایا جا سکتا ہے اور یہ اس کے لیے بہت ہی  مناسب جگہ ہے اگر گورنمنٹ چاہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ ایک چھوٹے سے ہسبینڈری کالج کو ورلڈ کلاس ریسرچ انسٹیٹیوشن میں کیسے لے آئے؟ 

پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد نواز:  میں نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ انٹرنیشنل لیول کا ایکسپو کیا۔ دوسرے نمبر پہ نیشنل لیول پر بھی میں نے ایکسپو کیا ہے۔ ہم وہاں پہ فنکشن رکھتے تھے طلباء کو بلاتے تھے اور انہیں بتاتے تھے کہ اس ادارے کا نام اب یونیورسٹی آف ویٹرنری  ا ینڈ اینیمل سائنسز ہوگا اس طرح سے ہم نے آگاہی پھیلائی۔

ڈاکٹر علی ساجد : پروفیسر صاحب آپ نے مشکلات دیکھیں، محنت کی  اور  ادارہ کو بین الاقوامی ادارہ بنا دیا۔ آپ کو صدارتی ایوارڈز سے نوازا گیا۔  تعلیم اور تحقیق  کے لیے آپ کےبے پناہ منصوبے موجود ہیں۔ آپ نے تعلیم میں جدت کا عنصر پیدا کیا۔  آپ کی خدمات کو عرصہ دراز تک سراہا جا ئے گا۔ ڈاکٹر صاحب   آپ نے دیا   ، گفتگو کرنے کا موقع دیا آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ پا کستان زندہ باد۔  


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !