ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں تعلیم اور یونیورسٹیز کا کردار

Dr. Ali Sajid
0

 ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں تعلیم اور یونیورسٹیز کا کردار

ترقی پذیر ممالک ترقی کیوں نہیں کر رہے؟ ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کیوں نہیں ہو پا رہے؟اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے اس کی درجنوں وجوہات ہیں۔اس وقت میں صرف دو یا تین  وجوہات پیش کروں گا۔یہ میری اپنی رائے ہے کسی بھی شخص کو یہ حق ہے کہ وہ میری رائے سے اختلاف کر سکتا ہے۔میں جو کچھ بھی بیان کروں گا اس کے پیچھے میرے مشاہدات ہیں اور تجربات ہیں جن کی بنیاد پر میں یہ تجزیہ پیش کروں گا۔

ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں تعلیم اور یونیورسٹیز کا کردار
ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں تعلیم اور یونیورسٹیز کا کردار


وہ پہلی چیز جس وجہ سے ترقی پذیر ممالک  ترقی یافتہ ممالک  کی فہرست میں نہیں آپاتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے۔اور اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے وہ اصلاحات نہیں کر پاتے اداروں میں فوری طور بہتری نہیں لاتے تا کہ  جس کے مثبت اثرات آئیں ۔یہی وجہ  ہے کہ وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔جو زمانے کی رفتار ہے وہ اس رفتار سے ہم آہنگ نہیں ہوتے ان کی اصطلاحات ان کی بہتری کی جو شرح ہے وہ بہت کم ہے۔اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ سوسائٹی کی جو ضروریات ہیں تقاضے ہیں وہ بہت آگے چلے جاتے ہیں اور ان کے ادارے اس کوپورا نہیں کر پاتے پھر ان تقاضوں کے اوپر وہ  بالکل پورا نہیں اتر سکتے۔اور پھر یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ پورا کا پورا ملک ترقی نہیں کر پاتا۔تو یہ پہلی چیز میں شامل ہے بنیادی اصلاحات اگر ترقی پذیر ممالک  جلد اصلاحات نہیں ہونگیں  ہونگی تو وہ اس فہرست سے   بھی نکل جائیں گے۔ان کی بہت ساری مثالیں ہیں جیسے تنزانیہ صومالیہ وغیرہ اور اس مثال میں پاکستان بھی شاید ہو سکتا ہے۔

ایف بی ار کے حوالے سے شبر زیدی کا جو بیان ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کے اوپر جب ہاتھ ڈالتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک پریشر گروپ موجود ہے ۔میں اس کی وضاحت میں نہیں جانا چاہتا میں صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی ریاست میں کوئی بھی کانگرس مین ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے گرفتار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ہمارے ملک پاکستان میں یہ صورتحال نظر نہیں آتی۔خود میں جب امریکہ سے واپس آیا تقریباً وہ جنوری کا مہینہ تھا تو ایڈوانس میں اپریل مئی کا ٹیکس جمع کرا کر میں آیا ہوں۔اب اپریل کی پہلی تاریخ ٹیکس جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے لیکن میں نے ایڈوانس میں ٹیکس جمع کروا دیا ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں پہ قانون کی اتنی پاسداری ہے۔قانون اتنا مضبوط ہے وہاں پر اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ وہ کسی کے خلاف بھی متعلقہ کاروائی کر سکتے ہیں۔جیسے ٹیکس جمع کرنے والے ادارے خود کفیل ہیں اور وہ خود ٹیکس جمع کرتے  ہیں اوروہ  کسی سے بھی کر سکتے ہیں۔چاہے ان کے اپنے باشندے ہوں اس ملک کے یا کوئی باہر سے آنے والے لوگ کام کر رہے ہوں تو ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ ان کو بھی معاف نہیں کرتا۔اب ان کا حل بھی یہی ہے کہ جیسے ہی ترقی پذیر ممالک بنیادی اصلاحات اس لحاظ کرنا شروع کر دیں گے تو وہ ترقی یافتہ ممالک  کی فہرست میں آنا شروع ہو جائیں گے۔

دوسری بڑی وجہ جو میرے نزدیک ہے وہ ہے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ۔آج سے تقریبا 25 سال پہلے پاکستان میں امریکہ کے سفیر تھے رابرٹ ٹوکلے اور جب وہ ریٹائرڈ ہوئے اور واشنگٹن ڈی سی میں واپس پہنچے تو ان دنوں میں واشنگٹن میں ہی تھا میں نے ان سے ایک ملاقات کی۔ یہ لوگ بڑے مہذب ہوتے ہیں۔ان کے اندر انا غرور تکبر نہیں ہوتا جیسے ہمارے ہاں بیوروکریٹس میں ہوتا ہے۔ریٹائرمنٹ پہ بھی اس نے مجھے اپنے آفس میں بلایا تھا۔ ان کی کوئی پرائیویٹ کنسلٹنسی  فر م تھی وہ چلا رہا تھا۔ اس نے مجھے کافی پلائی ۔میں نے ان سے کچھ سوالات پوچھے۔  میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان کی ترقی کیوں رکی ہوئی ہے؟ آپ کی نظر میں کیا چیز ہے؟تو انہوں نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی ہم نے نہیں روکی ہوئی بلکہ پاکستان کی ترقی آپ لوگوں نے خود روکی ہوئی ہے ۔میں نے بڑے تجسس سے پوچھا کہ ہم نے کیسے روکی ہوئی ہے؟ اپنے ملک کی ترقی۔تو اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ  آپ لوگ انسانوں کے اوپر ان کی صلاحیتوں کے اوپر ہیومن ریسورس کے اوپر کام ہی نہیں کرتے ان کے اوپر انویسٹ ہی نہیں کرتے ان کے اوپر کچھ خرچ ہی نہیں کرنا چاہتے۔آپ کے تعلیمی ادارے آپ کی یونیورسٹیاں ڈگری دیئےجا رہی ہیں بس۔اور آج سے 20یا 25 سال پہلے اسلام آباد میں ڈاکٹر عطاالرحمٰن صاحب نے بھی انہیں الفاظ میں کہا تھا کہ ہیومن ریسورس کے اوپر کام نہیں ہو رہا پاکستان میں جس سے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ہماری یونیورسٹیز اب ایک کمیونٹی کالج کی طرح  ہیں صرف ڈگریاں دیے جا رہی ہیں صرف بچوں کو فارمولے سکھائے جا رہے ہیں معلومات دی جا رہی ہے بس۔نوجوانوں کو عملی طور پہ کچھ نہیں سکھایا جاتا عملی طور پہ کوئی کام نہیں کروایا جاتا ریسرچ تحقیق بالکل نہیں کروائی جا رہی۔پڑھانے کے طریقے تبدیل نہیں ہو رہے ٹیسٹ لینے کے طریقے وہی پرانے ہیں اس میں کوئی جدت نہیں آرہی۔اب ہمارے جو ٹیسٹ طریقے  ہیں بس وہی یاداشت کے ٹیسٹ ہیں نالج سکلز اور کوالٹیز کے ٹیسٹ نہیں  ہیں۔اب ہمارے تعلیمی اداروں کا بس یہی مقصد رہ گیا ہے کہ آؤ داخلے لو ٹیسٹ دو یاداشت میں چیزیں بھرو اور ڈگری لے کر فارغ ہو جاؤ۔اسی وجہ سے ہمارے بے روزگاروں کے ہجوم میں اضافہ اور پھر اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ہیومن ریسورس کو بہتر نہ کرنا اس میں انویسٹ نہ کرنا ترقی پذیر ممالک کا وہ گناہ کبیرہ ہے جو قابل گرفت ہے جو قابل معافی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے  درجے سے اوپر نہیں جائیں گے۔اور اس نقطے کے اوپر آخری بات میری یہ ہے کہ جب ملائشیا میں مہاتیر محمد نے بنیادی اصطلاحات کرنا شروع کی اس نے سیاسی استحکام پیدا کیا اور اپنے ایک ملین سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو یورپ اور امریکہ سے ڈگریاں دلوائیں تاکہ وہاں سے کچھ سیکھ کر آئیں نہ صرف یہ کہ ان سے ڈگریاں دلوائیں بلکہ ان کو سب سے زیادہ معاوضے پر واپس اپنے ملک بلایا۔مہاتیر محمد نے دوسرے ممالک سے کہا کہ آپ سرمایہ کاری  کرو میں آپ کو سیاسی استحکام اور آپ کی پوری پروٹیکشن دیتا ہوں آپ کو۔خود دیکھیں کہ ملائشیا کیسے تیسرے درجے کے ممالک میں سے پہلے درجے کے ممالک کی فہرست میں آ چکا ہے۔اگر ایک جملے میں آپ اس کی وجہ پوچھیں تو اس کی بنیادی وجہ کہ ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ پہ ملائشیا کی سر مایہ کاری  ہے۔اگر ہم نے بھی ایسا کرنا ہے تو ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا پڑے گا۔ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں نوجوانوں کی ٹریننگز کے اوپر تعلیم  کے اوپر جتنا ہم خرچ کر رہے ہیں اس سے 10 گنا 20 گنا ہمیں زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ ایک ایسا نقطہ ہے جس کے اوپر جتنا تفصیل  سے بات کی جائے وہ اتنی ہی کم ہے ۔مختصر کرتے ہوئے میں ایک آخری نقطہ اس کے بارے میں بیان کروں گا وہ یہ ہے کہ 1960 یا 62 کے دوران جنوبی کوریا کے جو صدرتھے جنرل کیم KIM انہوں نے میڈیا پر آکر بتایا کہ ہم آئندہ اپنی جی ڈی پی کا 24 سے 30 فیصد حصہ اپنی تعلیم پر لگائیں گے اور یہ تقریبا 1962 یا 1963ء کی بات ہے اور آپ خود اس چیز کو محسوس کریں گے کہ آئندہ 30 سالوں میں وہی کوریا دنیا کے ایک معاشی نقشے پر آچکا ہے اور دنیا کی سپر پاورز کو ٹکر دینے کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔اب اس نے تعلیم کے اوپر تحقیق کے اوپر اتنا کام کر لیا ہوا ہے اب دنیا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔اگر ہمیں بھی ترقی کرنی ہے تو ہمیں بھی اپنی جی ڈی پی کا 20 سے 30 فیصد حصہ تعلیم پر تحقیق پر لگانا پڑے گا ورنہ ہم ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہی رہیں گے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !