ترقی پذیر ممالک کی معاشی سست رفتاری کی وجوہات

Dr. Ali Sajid
0

 ترقی پذیر ممالک کی معاشی سست رفتاری کی وجوہات

ترقی پذیر ممالک ترقی کیوں نہیں کر پا رہے۔ترقی پذیر ممالک تیسرے درجے کے ممالک کی فہرست میں سے نکل کر پہلے درجے کے ممالک میں کیوں نہیں شامل ہو رہے۔اس کی درجنوں وجوہات ہیں میں کچھ وجوہات کو بیان کرنا چاہوں گا۔میں دو اہم وجوہات آپ کو بتاؤں گا جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہو رہے۔پہلی جو بڑی وجہ ہے ترقی پذیر ممالک،  ترقی پذیر قوموں کا کہ وہ نئے آئیڈیاز کو جلدی سے قبول نہیں کرتے اپنے اندر ان کو جگہ  نہیں  دیتے۔ایسی قومیں ایسے ممالک نئے آئیڈیاز سے خوفزدہ ہوتے ہیں ان کو قبول  جلدی جلدی نہیں کرتے۔وہ تنگ نظر ہوتے ہیں اس معاملے میں ان کے دماغ روشن نہیں ہوتے۔اس حوالے سے اردو کے ایک  عظیم شاعر علامہ اقبال ؒ کا ایک مشہور شعر ہے کہ

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

ترقی پذیر ممالک کی معاشی سست رفتاری کی وجوہات
ترقی پذیر ممالک میں معاشی سست رفتاری کی وجوہات

آئین نو سے مراد جدید خیالات نئے  تصورات۔اور طرز کہن سے مراد پرانی روایات پرانےآئیڈیاز پر اڑے رہنا۔اور یہی منزل کٹھن ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ وہ نقطہ ارتقاء(Turning Point) ہے جس میں قوموں کی تقدیر بدلتی ہے جب وہ نئے آئیڈیاز کو قبول کرتے ہیں اور اپنی تقدیر بدل دیتے ہیں۔اگر ہم ترقی یافتہ قوم نہیں ہیں تو آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم ذہنی طور پہ نئے خیالات و تصورات کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اگر میں مثال دوں تو پاکستان کے سرکاری اداروں میں صرف ایک روشن مثال نظر آتی ہے نادرا(NADRA) کی جنہوں نے جدید آئیڈیاز کو لاگو کیا نئی ٹیکنالوجی استعمال کی اور نئے طریقے سے سہولیات دیں۔اب نادرا نے عوام کو اتنی سہولت دے دی کہ گھر بیٹھ کے بھی آپ اپنے شناختی کارڈ کے لیے درخواست بھیج  سکتے ہیں۔اسی طرح ہمارے پاسپورٹ آفس میں بھی کافی ساری ترقی ہوئی ہے ۔ نئے آئیڈیاز انہوں نےقبول کیے ہیں اور وہاں پہ لاگو بھی کیے ہیں اور اب  نتائج ان کے سامنے نظرآرہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ گھوم پھر کے دیکھ لیں باقی اکثر  نجی و سرکاری اداروں میں جدید آئیڈیاز کو قبول ہی نہیں کیا گیا۔ ابھی تک  لکیر کے فقیر ہیں اسی پرانے طریقے سے چل رہے ہیں۔اب اس کے لیے میں آپ کو کیا بولوں اب آپ اندازہ لگائیں کہ آج بھی ڈومیسائل کے لیے آپ کو ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ شناختی  کارڈ کے بعد اس کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے لیکن پھر بھی اسی طریقے سے وہ سسٹم  سلسلہ چل رہا ہے۔ہم نے یہ بھی زحمت نہیں کی کہ اس طریقے کار کو ہی چینج کر لیں۔ہمیں اپنے اداروں کی پالیسیزپر نظر ثانی کرنا  ہو گی ۔ اس کو دہرانا پڑے گا اور اس میں نئی سے نئی چیزیں شامل کرنی پڑیں گی وقت کے تقاضوں کے مطابق۔اور پالیسی کو دیکھنے کے دوران یہ ہمیں مد نظر رکھنا ہے کہ اس میں مزید کس قدر بہتری کی جا سکتی ہے ہر  طریقہ کار میں کتنا بہتری لائی جا سکتی ہے ہر چیز کی کتنی قیمت ہے؟،  کتنی اہمیت ہے ؟ اور اس کو کیسے آپ نے ترتیب میں لانا ہے۔آپ یہ دیکھیں ایک عملی مثال ہے اس کی کہ جب آپ کسی سسٹم کو بہت مشکل کر دیتے ہیں پیچیدہ کر دیتے ہیں اس کےطریقہ کار  کو تو جو اس کے نتائج ہیں بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں یا مشکل ہو جاتے ہیں اور اس  میں پیسے بھی زیادہ لگتے ہیں۔عوام یا کسٹمر ان سے مطمئن نہیں ہوتے جب وہ مطمئن نہیں ہوتے تو ان کا منفی اثر پیدا ہوتا ہے اور مزید یہ کہ جی ڈی پی میں بھی ان کا اثر نظر اتا ہے۔

اس میں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی عمل کو آسان کرنا ایک الگ چیز ہے اس میں جدت شامل کرنا وہ ایک الگ چیز ہے۔  جدت کے مطابق چیزوں کو ڈھالنا ایک الگ چیز ہے تو یہ دونوں چیزیں ہم نہیں کر رہے نہ تو  طریقہ کار کو ہم آسان کر رہے ہیں اور نہ ہی جدید تقاضوں کے مطابق کر رہے ہیں۔جب کوئی قوم اپنی وسعت نظری کے ساتھ جدت و ندرت کو قبول کرتی ہے تو اس کے متعلق علامہ اقبال کہتے ہیں۔

ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ذوق انقلاب

ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ملت کا شباب

ندرت فکر و عمل سے ہیں معجزات زندگی

ندرت فکر و عمل سے سنگ و خارہ نعل و ناب

علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ ندرت و فکر و عمل سے مراد  جدید آئیڈیاز کو قبول کرنے سے قوم زندہ ہو جاتی ہیں۔  اس قومیں صرف زندہ نہیں ہوتی بلکہ  جوان ہو جاتی ہیں۔علامہ اقبال ؒ بڑے خوبصورت انداز میں کہتے ہیں کہ یہ جتنے بھی اس دنیا میں سائنسی  معجزے ہوئے ہیں یہ جدید آئیڈیاز کے مرہون منت ہیں یا ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ  کا یہ تصور ہے کہ قوموں کی زندگی میں پتھر ہیرا تب بنتا ہے جب اس میں جدید تصور کی بنیاد پر جدید آئیڈیاز کی بنیادپر ٹیکنالوجی کی بنیاد  پہ اس کے اوپر کام ہوتا ہے۔

پاکستان میں تقریبا ہر جگہ ہر شعبے میں  جدت  کی ضرورت ہے ۔ ہر شعبے میں  ترقی کی ضرورت ہے جدت کی ضرورت ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جدت کی ضرورت ہے۔  پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی میں  جدت و ندرت  کی ضرورت ہے اور  آگے چلیں  درآمدات میں برمدات میں ، زراعت  میں، صنعت ، سیاحت،  تعلیم  میں، صحت میں ،  غرض ہر جگہ جدت و ندرت کی ضرورت ہے۔

پرانے فرسودہ طریقوں سے نکل کر اب اگلے جدید طریقوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے بہت اثرات ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ملکی ترقی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اگر ہر شعبے میں جدت و ندرت  نہ آئی اور اس کے اوپر کام نہ کیا گیا تو جو لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو ان کی تعداد میں آپ  مزیداضافہ پائیں گے۔

Innovation is the only solution in the policies for policy makers.

اور یہی اس حوالے سے میرا پیغام  بھی ہے میں اپنی بات اس شعر پہ ختم کرتا ہوں۔

اوروں کا پیام اور اور میرا پیام اورہے

عشق کے درد مندوں کا طرز کلام اور ہے

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !