لاہور میں لائبریری کلچر کا رجحان

Dr. Ali Sajid
0

 لاہور میں لائبریری کلچر کا رجحان 

میں نے  کینیڈ ا میں کچھ وقت گزارا۔ جب میں کینیڈا میں تھا مجھے وہاں کچھ عرصہ کیلگری  شہرمیں وقت گزارنے کا موقع ملا اور ٹورانٹو میں بھی میں نے کچھ وقت گزارا۔میں نے ان کے اندر بہت ساری خصوصیت میں دیکھیں ہیں جن میں سے ایک منفرد خصوصیت کو میں آپ کے سامنے پیش کیے دیتا ہوں۔

لاہور میں لائبریری کلچر کا رجحان
لاہور میں لائبریری کلچر کا رجحان

شمالی امریکہ  کے علاقوں میں امریکہ ،کینیڈا ایسے ممالک کے بارے میں پاکستان میں یہ تاثر ہے وہاں پہ صرف تفریح ہوتی ہے۔ وہاں پہ ساحل سمندر  پر لوگ دن رات  ناچ گانا    کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایسے ممالک مختصراً عیاشی کا گڑھ ہیں۔لیکن جب میں نے وہاں جا کر دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ معروضی حقائق اس سے مختلف ہیں یہ قومیں کتابی کیڑے ہیں۔یہ تاثر ہمیں دیا ہی نہیں گیا  کہ یہ لائبریری کے کلچر کو بہت پسند کرتی ہیں۔ یہاں کے لوگ لائبریریز میں جاتے ہیں ان کو باقاعدہ استعمال میں لاتے ہیں اور اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اور آپ حیران ہوں گے کہ ان کے ہر بڑے شہر میں ہر چند کلومیٹر کے بعد ایک بہت اچھے درجے کی لائبریری موجود ہے جس میں ہر طرح کی کتابیں، رسالے  اور جرائد موجود ہیں  اور وہاں ہر طرح کے اخبارات موجود ہیں۔ اس لائبریری کی جو فنڈنگ ہے وہ لوکل گورنمنٹ کے ماتحت ہوتی ہے۔ایسی لائبریریز میں جہاں پہ آپ کو انٹرنیشنل لیول کاپڑھنے کا مواد بھی مل جاتا ہے اور وہ بھی مفت میں۔ایسی لائبریریز کی ممبرشپ فیس بھی نہیں ہے۔یہ لائبریریز صرف ایک کمرے پر مشتمل نہیں ہوتی یہ کافی کمروں اور ہالز کے پر مشتمل ہوتی ہیں اور لوکل گورنمنٹ ان کے سارے خرچے اٹھاتی ہے تاکہ لوگ یہاں پر آئیں اور پرسکون ہو کے علم سے مستفید ہو سکیں۔لائبریریز کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ وہاں بالکل خاموشی ہوتی ہے۔ یا یوں کہیں کہ  سکوت کا عالم ہوتا ہے ۔لائبریری میں کسی بھی شخص کو اونچی آواز میں بات کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی نے دوسرے شخص سے بات کرنی ہے تو بالکل خاموشی سے اشاروں میں بات کرتا ہے تاکہ کوئی دوسرا شخص پریشان نہ ہو۔یہاں پہ لوگ گھنٹوں وقت گزارتے ہیں کتابیں پڑھتے ہیں رسالے پڑھتے ہیں مختلف لٹریچر پڑھتے ہیں اور پھر گھر چلے جاتے ہیں۔یہاں پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایسے ممالک جن کے بارے میں ہمارا تاثر ہے کہ یہ بالکل جدید معاشرے ہیں ڈیجیٹل معاشرے ہیں لوگ مشینی زندگی گزار رہے ہیں تو لائبریریز میں جانا وہاں پہ ان کے لیے وقت نکالنا یہ لوگ کیسے ممکن کر لیتے ہیں؟۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں بچپن سے ہی بچوں کو کتاب پڑھنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو وہ خود بخود لائبریریز کا رخ کرتے ہیں اور اپنی تسکین کرتے ہیں۔ان کے ہاں تو یہ رواج ہے اگر کسی شخص نے کتاب پڑھنی ہے تو وہ ٹرین میں بیٹھ کے کتاب پڑھ لیتا ہے اور اپنے آفس پہنچنے تک اپنی کتاب کا ایک باب مکمل کر لیتا ہے اور جب آفس سے واپس آئے گا تو پھر ٹرین میں بیٹھ کے اگلاباب  پڑھ لے گا ۔  تواس طرح سے وہ وقت ضائع نہیں کرتے وہ مطالعے میں مصروف رہتے ہیں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے وہ کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔اب ان لوگوں میں یہ رجحان ہے کہ سفر کے دوران ایک دوسرے کو دیکھنے کے بجائے ایک دوسرے کو تکتے رہنے کے بجائے بہتر ہے کہ وہ اس کو مطالعے میں تبدیل کر لیں اپنے وقت کو مفید بنا لیتے ہیں۔لوگوں کے ایسے رویے لائبریریز کے مرہون منت ہیں یہ مثال میں نے اپ کو کینیڈا کے ٹورانٹو کی مثال دی۔امریکہ میں بھی اس سے ملتے جلتے ہی نتائج ہیں وہاں پر بھی لوگ لائبریریز کو ایسے ہی پسند کرتے ہیں ان کا رویہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔

اب ذرا ہم جائزہ لیتے ہیں پاکستان کے دل لاہور شہر کا ۔لاہور شہر میں پنجاب پبلک لائبریری انگریزوں نے بنوائی تھی ۔یہ لائبریری تقریبا 1884ء میں قائم ہوئی۔یہ لائبریری میرے سکول کے بالکل قریب تھی میرے گھر کے بھی پاس تھی۔گورنمنٹ کالج بھی اس کے اس کے قریب ہی ہے۔قریب ہونے کی وجہ سے میں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا میں نے بیس پچیس  سال وہاں پہ گزارے اور وہاں کی اکثر کتابوں کو پڑھ پڑھ کے حفظ کر لیا۔بے پناہ کتابیں وہاں پہ پڑی تھی۔کیونکہ ایک تو دستیاب تھی اور یہ لائبریری میرے گھر کے قریب تھی اور فری تھی ۔ میں یہ سمجھتا ہوں میں اس لائبریری سے فائدہ اس لیے حاصل کر سکا کہ وہ میرے گھر کے پاس تھی اور اگر دوسری طرف جائزہ لیں اس کے بعد اگلے 50 سو سالوں تک صرف تین لائبریریز پورے لاہور شہر میں بنی ہیں۔ اب پاکستان بننے کے بعد اب  بڑی لائبریریز لاہور میں نئی بنی  ہیں ۔اور ان لائبریریز کی مشکل بات یہ ہے کہ ان میں داخلہ اتنا آسان نہیں ہے کہ آپ چلے جائیں اور آپ کا کارڈ بن جائے گا ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ان لائبریریز میں شناختی کارڈ دکھا کے کارڈ بنانے کا رواج نہیں ہے آپ کو بیان حلفی جمع کروانے پڑتے ہیں آپ کو اپنے کاغذات اٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں آپ کے۔ بہت سارے لوازمات ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں آخر کار تنگ آکر  عام آدمی کہتا ہے کہ بس چھوڑ دو اس سے بہتر ہے نہ ہی پڑھیں۔ میری لاہور کے پنجاب کے اور پاکستان کے ارباب اختیار سے یہ گزارش ہے کہ لائبریریز کو بڑھائیں لائبریری کلچر کو پروموٹ کریں تاکہ ہماری جنریشن کو ہمارے نوجوانوں کو اپنی سوچ کو کوئی شکل دینے کے لیے کوئی انہیں آئیڈیاز ملیں ۔کسی کتاب کے سبب ان کو نئی سوچ ملے ۔یہ نوجوان تخلیق کی طرف آئیں کوئی اپنی کتاب لکھے کوئی اپنی آپ بیتی لکھےکوئی سفر نامہ تخلیق کرنے کی کوشش کرے۔ بجائے یہ کہ یہی بچے سوشل میڈیا کے اوپر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں جس میں بس چیزیں فارورڈ ہی ہو رہی ہیں ایک دوسرے کو۔ مجھے امید ہے اس وقت جو ہمارے ارباب اختیار ہیں وہ اس کو ضرور اہمیت دیں گے کیونکہ وہ خود ان چیزوں کی اہمیت سے واقف ہیں کہ وہ خود کتابیں پڑھ کے اوپر آئے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ کتنی اہم چیزیں ہیں اور یہ کلچر کتنا اہم ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے جو وزیراعظم ہیں ان کو چاہیے کہ جانے سے پہلے ہر شہر میں ہر چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اچھی لائبریری موجود ہو تو اپ دیکھیں گے اس کا فائدہ سیاسی طور پر بھی ہوگا کہ جو نوجوان  جب کتابوں میں لائبریری میں جائیں گے تو وہ آئیڈیاز لے کر ائیں گے جو کہ آپ کے لیے معاشی طور پر اور سیاسی طور پر بھی بہت فائدہ مند ہے۔کیونکہ یہ لائبریریز نوجوانوں کو مثبت سمت میں لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ کام صرف لائبریریز ہی کر سکتی ہیں۔ میں اگر آپ کو اپنی رائے بتاؤں اپنے بارے میں میری اس وقت کی تشکیل میں میری شخصیت میں میری کامیابی میں میرے ماں باپ کی دعاؤں کے بعد اس پنجاب پبلک لائبریری کا بہت اہم کردار ہے۔میں نے جتنا وقت پنجاب پبلک لائبریری میں گزارا اس نے میری تراش خراش کی میری شخصیت کو اٹھایا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں میں نے شاعری کی کتابیں پڑھیں، دیوان غالب میں نے فری پڑھے سفر نامے میں نے پڑھے جنرل نالج کی کتابیں میں نے بہت پڑھی وہاں پر جو کہ فری آف کاسٹ ملتی  تھیں۔ جو کہ گلی  محلے میں ملتی تھی کرائے کے اوپر تاکہ ایک دن پڑھنے کے بعد واپس کر دیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گلی محلے سے وہ کلچر بھی ختم ہو چکا ہے۔ پہلے ایک وقت تھا لاہور کے گلی محلے میں لوگ کتابوں کے ڈھیر لگا کے بیٹھے ہوتے تھے 50 پیسے میں ایک روپے میں وہ کتاب آپ کو دیتے تھے تاکہ آپ اس کتاب کو پڑھیں اور ایک مخصوص وقت میں پھر واپس کر دیں یہ بہت پیارا کلچر تھا یہ بھی بہت مناسب تھا اور مفید تھا  بد قسمتی سے وہ بھی جاتا رہا۔

مستنصر حسین تارڑ کا تقریبا پہلا سفر نامہ میں نے پنجاب پبلک لائبریری میں پڑھا جس کا نام تھا" نکلے اندلس میں اجنبی"۔

آخر میں میری اپنے پالیسی میکر سے اپنے ماہر تعلیم اپنے سیاسی حکمرانوں سے جو جو بھی با اختیار ہیں گزارش ہے کہ  وہ لائبریری کلچرز کو پروموٹ کر سکتے ہیں وہ لائبریری کلچرز کو پروموٹ کریں کیونکہ یہ قوموں کی نوجوان نسل کی سوچ کی تشکیل  میں اہم کردار ادا کرے گی۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !