خاندانی کاروبار دوسری تیسری نسل میں بند کیوں ہو جاتے ہیں؟

Dr. Ali Sajid
0

 خاندانی کاروبار دوسری تیسری نسل میں بند کیوں ہو جاتے ہیں؟

یقینا آپ CNN   ٹی چینل دیکھتے ہوں گے، یا آپ نے ایک ضرور بار دیکھا ہوگا ۔میں بھی دیکھتا ہوں۔سی این این (CNN) چینل میں سیریز چلتی ہے جس طرح ہمارے ہاں ڈرامے چلتے ہیں ان کی قسطیں ہوتی ہیں لیکن سی این این(CNN) سیریز چلاتا ہے۔ پچھلے کافی عرصے سے وہاں پہ ایک سیریز چل رہی ہے جس میں یہ واضح طور پہ دکھایا جاتا ہے کہ یورپ میں امریکہ میں اور اس طرح کے ترقی یافتہ ممالک  میں خاندانی کاروبار سو، سو سال سے دودو سو سال سے چل رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس کا تصور نہیں ہے پاکستان میں کوئی بھی خاندانی کاروبار ہو وہ دوسری نسل میں بند ہو جاتا ہے۔

خاندانی کاروبار دوسری تیسری نسل میں بند کیوں ہو جاتے ہیں؟

 اب یہ ایک غور طلب بات ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ایسا کیا ہے؟ کہ ان کے ہاں خاندانی کاروبار سینکڑوں سالوں تک چلے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کاروبار دوسری نسل میں مشکل سے جا پاتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں؟ میں اس کی وجوہات کے اوپر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلی وجہ جس کی وجہ سے خاندانی کاروبار اگلی نسل میں نہیں جا پاتے اس میں پروفیشنلزم کا نہ ہونا ہے۔ دیسی ٹوٹکے سے چلاتے ہیں دیسی طریقے  سے  ہمارے کاروبار چلتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر کوئی بھی منظم  نظام نظر نہیں آتا۔ کسی کام میں پروفیشنل ہو نا کوئی اکلوتی چیز نہیں ہے اس میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں۔ اس میں چھ سے آٹھ دس چیزیں ہیں۔ میں صرف چند چیزوں  پر روشنی ڈالتا ہوں۔ 

ہمارے ہاں کاروبار بڑھانے کے چند روایتی طریقے موجود ہیں اور وہ بالکل کامیابی کی ضمانت نہیں ہیں، وقتی طور پر ان سے فائدہ ہوتا ہے لیکن دیر پا نقصان ہی  ہوتا ہے۔ اور یہ روایتی ایسے طریقے ہیں جن  پر اخلاقی نظر ڈالی جائے تو کوئی اچھا  تاثر نظر  نہیں آتا۔ مثال کے طور پہ یہ ہمارے ہاں کاروبار بڑھانے کا ایک طریقہ ہے کہ مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ کام کرواؤ اوور ٹائم لگواؤ اور انہیں مزدوری نہ دو یا پھر  کم سے کم اجرت دو اس سے وقتی طور پر کاروبار تو بڑھتا ہے لیکن اخلاقیات کے اوپر سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔ دوسرا ایک طریقہ ہے کہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ بجلی چوری کر کے اپنے خرچے کم کرو۔ تیسرا ایک عام سا رواج ہے جو کہ پاکستان کے طول و عرض میں سرایت ہے کہ کاروبار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کم سے کم دو تاکہ آپ کے پیسے بچیں۔ ہمارے ہاں کاروبار بڑھانے کا ایک اور طریقہ ہے کہ تیسرے درجے کی چیز کو دوسرے اور پہلے درجے کی چیز بنا کے پیش کرو اور اس کو بیچ کر  پہلے درجے کی چیز کی قیمت وصول کرو۔ اور اس کو اگر مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا جائے تو گھٹیا چیز کواعلیٰ بنا کے بیچو اور پیسے  بناؤ۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ شروع میں بڑا اچھا منافع ہاتھ آجاتا ہے بعد  کی بعد میں  دیکھی جائے گی۔ حالانکہ دیر پا کاروبار کے لیے یہ لازمی ہے کہ آپ کی اخلاقیات مضبوط ہوں آپ کے کاروبار میں اخلاقیات کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ آپ کے کاروبار میں جتنی اخلاقیات کی آمیزش ہو گی اتنا ہی یہ کاروبار اوپر جائے گا اور مضبوط ہوگا۔ 

دوسری جو ایک اہم چیز ہے ہمارے روایتی کاروباروں میں ہے کہ پرانی اور فرسودہ چیزوں کے ساتھ چمٹے رہنا۔ ان کو جدت کا رنگ نہ دینا۔ اس کو میں کہتا ہوں کہ "ابا جی اپروچ" جیسے ابا جی نے کہا تھا جیسے بزرگوں نے کام کیا تھا ویسے ہی اسی طریقے سے اس کو آگے لے کر چلنا ہے چاہے وہ غلط ہو چاہے وہ فرسودہ ہو۔ اور ہمارے ہاں اس کو عموماً کہا جاتا ہے "میاں جی اپروچ "جیسے ہمارے سینیئر نے کہہ دیا جس طرح ہمارے مالک نے کہہ دیا ویسے ہی کرنا ہے چاہے کاروبار ڈوب جائے۔ اس طریقے کار کی تفصیل میں  جانے سے پہلے میں تھوڑی سی وضاحت کروں تو اس کا مطلب ہے کہ بغیر سوچے سمجھے سنی سنائی باتوں کے اوپر عمل کرتے جانا۔ اس طریقے کو عموماً لکیر کے فقیر ہونا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سوچنے کا یہ طریقہ ،کام کرنے کا یہ طریقہ بالکل خطرناک ہے اور فرسودہ ہے اور بڑی وجہ ہے کہ ہمارے کاروبار آگے نہیں چل پاتے۔ اس حوالے سے مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا  ہے اور میں چاہوں گا کہ وہ میں ضرور بیان کروں  ۔ علامہ اقبال ؔ    کہتے ہیں

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

کہنے کا مطلب یہ ہے جو بھی ترقی کرنے والے ادارے ہوتے ہیں وہ نئے سے نئے خیالات کو جگہ دیتے ہیں انہیں لاگو کرتے ہیں نئے خیالات پر  کام کرتے ہیں اور جس سے نئےنئے نتائج سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے 

جہان تازہ کی ۔۔۔۔ تازہ سے نمود ہوتی ہے

سنگ و خش سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

چوتھی اہم چیز جس کی وجہ سے ہمارے کاروبار ناکام ہو جاتے ہیں اور اگلی نسل تک نہیں جاتے،  بجائے آگے  بڑھنے کے تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آخر کار ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ  ایک اہم چیز ہے اور وہ ہے   جدید ذرائع مواصلات کا استعمال نہ کرنا۔ذرائع مواصلات کسی بھی کاروبار کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں اگر آپ نے کاروبار کو بڑھانا ہے تو ذرائع مواصلات کو جدت میں لانا ہوگا جدید ذرائع مواصلات کو استعمال کرنا آپ کے لیے لازمی ہو جائے گا۔ اگر آج بھی دیکھیں ہمارے دکاندار ہمارے، کاروباری  لوگ ، ہمارے سیٹھ ہمارے آج بھی انگلیوں اور کیلکولیٹر کے اوپر کام کر رہے ہیں۔ یہ  کمپیوٹر کا استعمال نہیں کریں گے۔ آج کل کا دور سافٹ وئیر کا دور ہے مگر ہماری ہاں کارو باری افراد سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ دیسی طریقے سے ادارے چلا ئے جاتے ہیں انگلیوں کے اوپر حساب کرتے ہیں مگر  اکاؤنٹنگ کے سافٹ ویئر استعمال نہیں کریں گے مینیجمنٹ کے سافٹ وئیر استعمال نہیں کریں گے کیونکہ اس سے جدت آتی ہے اور جدت ہم نے لانی نہیں ہم نے پرانے طریقے سے اپنا کاروبار چلانے ہیں اور یہی وجہ بنتی ہے جس سے کاروبار آگے نہیں جاتا۔ اور اس میں نقصان کیا ہوتا ہے کہ اندازوں کے اوپر فیصلے ہوتے ہیں کیلکولیشن ہوتی نہیں، تجزیہ مناسب نہیں ہوتا ،لاکھوں اور کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ جب کاروبار کی پیشین گوئی ٹھیک نہیں ہوتی تو کاروبار آگے نہیں چلتے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا  ہے کہ غلط اندازے کی وجہ سے کروڑوں کی انویسٹمنٹ غلط جگہ پہ لگا دیتے ہیں اور نقصان ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے غلط معلومات کی بنیا پہ وقت سے پہلے اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں الغرض نقصان ہوتا ہے اکثر۔ اس میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ میرا دل یہ کہتا ہے،  میرا یہ خیال ہے ایسا ہو جائے گا،  تو لہذا یہ کر دو۔ اس کے پیچھے کوئی تصدیق نہیں ہوتی اس کے پیچھے کوئی تصدیقی مواد نہیں ہوتا۔

ایک اور چیز جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا وہ ہے "معیار"

(Standard)  سوچنے کا معیار،  کام کرنے کا معیار اور کوئی بھی خدمت ہے یا کوئی بھی چیز ہے جس کو ہم نے مارکیٹ میں لانا ہے اس کا "معیار" کیا ہونا چاہیے اور اس کا معیار کون طے کرے گا۔اب مارکیٹ میں اس معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اور بنانے کے لیے بہت سارے اداروں نے اور گورنمنٹ آف پاکستان نے ائی ایس او(ISO) کے  نام سے ایک ادارہ بنایا ہے۔ جس کا کام یہ ہے کہ وہ چیزوں کے معیار مرتب کرتا ہے اور ان کو لاگو کرواتا ہے۔ لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بھی عملی طور پہ کوئی اچھا کام نہیں کر رہا۔ یہ بھی کاغذی کاروائی سے آگے نہیں گیا کہ اس لیے اس نتائج نظر نہیں آتے۔ ائی ایس او 9000 جیسے معیار جب آپ اپنی مارکیٹ میں لاتے ہیں انہیں لاگو کرتے ہیں تو یقیناً کاروبار کے اوپر بہت مثبت اثر پڑتا ہے مارکیٹ آپ کی  پروان چڑھتی ہے۔ کیونکہ مارکیٹ معیار سے چلتی ہے. اب معیار جتنا اچھا ہوگا اور انٹرنیشنل لیول کے مطابق ہوگا تو وہ مارکیٹ انٹرنیشنل لیول کو ٹچ کرے گی اور یقیناً آپ اندازہ لگائیں کہ بزنس دکان سے ایک محلے سے نکل کر پوری دنیا میں چلا جائے گا ملٹی نیشنل ہو جائے گا۔ یہ ایک اہم چیز ہے معیار اور ہم اس کے اوپر عمل نہیں کرتے ہماری مارکیٹ کا، ہمارے بازار کا اور یہاں تک کہ  ہمارے دکاندار کا کوئی معیار نہیں ہے۔ 

بین الاقوامی سطح پر معیار کے اوپر بہت کام ہو رہا ہے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کیسے  کرنے چاہیے؟۔  معیار کے مطابق پیداواری صلاحیت کیسے بڑھانی چاہیے؟ اس کے اوپر بہت کام ہو رہا ہے۔ معیار کو لاگو کرنے سے نہ صرف یہ کہ پیداوار بڑھتی ہے بلکہ بہت سارے خسارے بھی کم ہوتے ہیں بہت سارے نقصان ختم ہو جاتے ہیں۔ معیار کے مطابق پروڈکشن کرنا پیداواری صلاحیت کو  آگے لے کر چلنا یہ تو ہمارے مزاج میں ہی نہیں  اور مینجمنٹ کرنا یہ تو بالکل بھی ہمارے مزاج میں نہیں ہے۔ چیزوں کو کیسے مینج کرنا ہے؟ سسٹم میں کیسے لے کر آنا ہے؟ نظام بنانا ہمارے سوچ میں نہیں ہے یا یوں کہنا چاہیے ہمارے خون میں ہی نہیں ہے۔ 

بزنس مینجمنٹ کا تصور ہماری مارکیٹ میں بالکل بھی نہیں ہے ہماری تنخواہیں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے خسارے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ الغرض بہت زیادہ نقصان کر کے ہم کاروبار کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کو بہتر کرنے پہ کام کرنا ہے تو وہ ہم کام نہیں کرتے۔ محققین یہ کہتے ہیں کہ جب آپ معیار کے مطابق کام کرتے ہیں تو آپ کے خرچے کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کی پیداوار کئی گنا تک بڑھنا شروع کر دیتی ہے لیکن اس کے اوپر سوچتے بہت کم لوگ ہیں۔  یہ پانچ چیزیں میں نے آپ کو بیان کی ہیں جو کہ کسی بھی کاروبار کی بہتری کے لیے بہت مناسب ہیں۔ اسی دوران میں ایک اور چیز کی طرف اشارہ کروں اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا کاروبار آگے جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے کاروبار کو انٹرنیشنل لیول کے کاروبار سے ملائیں ان سے موازنہ کریں، ان کا اور ان کے ان  معیار کو اپنائیں کریں جو اسلام سے مماثلت رکھتے ہوں، ان کے مطابق اپنا آڈِٹ(Audit) کروائیں۔ اپنے خاندان کے ہر بندے کو ڈائریکٹر بنانے کے بجائے جو لوگ اس میں قابل ہیں اور ماہر ہیں ان کو آگے لے کر آئیں اور ان کو یہ کاروبار سنبھالنے دیں ۔ قابل افراد آپ  کو کما کر بھی دیں گے اور آپ کا کاروبار چلا کر بھی دیں گے۔ 

میں آپ کو ایک مثال دوں کہ 1924ء میں ہینری فورڈ(H.Ford) نے فورڈ (Ford) نام کی ایک کمپنی بنائی اور اس کو بین الاقوامی معیار کے مطابق چلایا اور آپ دیکھتے ہیں آج بھی وہ کمپنی موجود ہے اور اس کا ایک نام ہے۔ 

اب ہمارے کاروباری لوگوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو کیسے چلانا چاہتے ہیں اپنے پرانے فرسودہ طریقے سے یا نئے لوگوں کو نئے معیار کے مطابق اور بین الاقوامی معیار کے مطابق چیزوں کو چلانا چاہتے ہیں کیونکہ پرانے طریقے سے اب کچھ نہیں چلے گا۔ اور اس کے حوالے سے میں عرض کرنا چاہوں گا علامہ اقبالؔ نے فرمایا

وہ دور گیا کہ ساقی چھُپ کے پیتے تھے پینے والے

بنا ہے سارا جہان میخانہ ہر کوئی و بعد خوار

اب جو بھی کاروبار بین الاقوامی معیار کا ہوگا ان کے قوانین کو لاگو کرے گا بین الاقوامی معیار کو پورا کرے گا اس کو دوام ہے وہ دیر پا رہے گا وہ نسلوں تک رہے گا۔


Tags

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !