کم تعلیم یافتہ لوگ کاروبار میں بہتر کیوں ہوتے ہیں؟

Dr. Ali Sajid
0

 کم تعلیم یافتہ لوگ کاروبار میں بہتر کیوں ہوتے ہیں؟

(پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد(تمغہ امتیاز)  کے ساتھ ایک نشست)

میں نے پاکستان کے طول و عرض میں دیسی اور مقامی کاروبار کرنے والے لوگوں میں ایک مثبت چیز دیکھی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دیسی کاروباری  طرز میں کچھ ایسے مثبت پہلو ہیں جن پر زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ عمل نہیں کرتے یا ان کے اندر یہ چیز نظر نہیں آتی ہیں یا اگر ہوتی  ہیں  تو بہت کم۔اس کاروباری طرز سے کامیابی کی ضمانت بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر ڈاکتر علی ساجد (تمغہ امتیاز)
اس طریقہ کار کا نام ہے" یملہ کملہ"طرز عمل ۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ یہ نام تو بڑا غیر روایتی سا ہے۔ اس کو سن کر بھی بڑا عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس لفظ میں آپ کو دیسی طرز عمل   کا عکس ملے گا جو میں آپ سے اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ "یملہ کملہ" طرز عمل، میں نے ان لوگوں میں دیکھا ہے جو اپنا  ذاتی کاروبار چلا رہے ہیں۔ بہت زیادہ یہ لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے مشکل سے میٹرک ایف اے پاس ہوتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹیز کی تعلیم ان کے پاس نہیں ہوتی جد ید طرز کی سوچ  نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ان کا کوئی بہت بڑا نظریہ یا سوچ بھی نہیں ہوتی۔ لیکن ان کے اندر اس کے باوجود کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کو صوفیانہ  خصوصیات کہا جا سکتا ہے۔ اور اسی وجہ سے میں نے ان کو" یملا کملہ" خصوصیات کا نام دیا ہے۔ وہ لوگ اپنے ماتحت لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل نہیں کرتے۔ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنے ماتحت کام کرنے والے کارکنان کی غلطیوں کو وہ اس طرح سے نظر انداز کرتے ہیں جیسے انہیں معلوم ہی کچھ نہیں ہے لیکن حالانکہ انہیں سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ اب یہ خصوصیت ان کے اندر کیسا پیدا ہوئیں؟ لیکن اس کے فائدے یہ ہیں کہ ان کی جماعت  کے کارکن  ہیں وہ دل برداشتہ نہیں ہوتے وہ ان سے مانوس رہتے ہیں اور اپنے کام کے سلسلے اور جذبہ  کو جاری رکھتے ہیں۔ مختصر یوں کہا جا سکتا ہے وہ کسی کا دل نہیں توڑتے اور اس کے لیے وہ پورا اہتمام کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کوشش کرتے ہیں ۔" یملہ کملہ "خصوصیات کے حامل ہمارے جو دیسی کاروباری افراد ہیں یا جو بھی سربراہان ہیں وہ اس خصوصیت سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں اور اٹھانا بھی چاہیے۔ ایسے کاروباری افراد جو اس خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں عموماً یہ پانچ سےدس یا  پندرہ کروڑ کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کے ماتحت تقریباً 25 سے 50 افراد کام کرتے ہیں اور وہ اسی طرز عمل کی بنیاد پرادارہ  کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کے حوالے سے غالبؔ کا ایک شعر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 

روک لو گر غلط کرے کوئی

اور بخش دو اگر خطا کرے کوئی

ایک مرتبہ مجھے ایک یونیورسٹی میں ایسا وائس چانسلر ملا جس کے اندر" یملا کملہ" خصوصیات تھیں۔ مطلب وہ میری غلطیوں کو درگزر کرتا تھا نظر انداز کرتا تھا، کوئی اگر مجھ سے دانستہ یا نا دانستہ  غلطی ہو بھی جائے تو وہ کوشش کرتا تھا کہ اگر نظر انداز کیا جا سکتا ہے تو وہ نظر انداز کر لیتا تھا۔ اور جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوتا تھا میں ان کے پاس جا کر اس غلطی کی معذرت کرتا تھا تو وہ  وائس چانسلر ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ظاہر کرتا تھا  کہ کچھ ہوا ہی نہیں، انہیں کچھ معلوم ہی نہیں تھا، یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے۔ اور وہ اس چیز کا خیال رکھتے تھا کہ سامنے والا شخص دل برداشتہ نہ ہو اور کام کا تسلسل نہ ٹوٹے بلکہ وہ دل سے کام کرے اور اور جذبے سے کام کرے اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ میرے خیال میں اگر یہ خصوصیات کسی گھر کے سربراہ میں ہیں کسی ادارے کے مالک کے اندر یہ خصوصیات ہیں اور اگر کسی سپہ سالار کے اندر یہ خصوصیات موجود ہیں اور کسی بادشاہ ، صدر یا  وزیر اعظم کے اندر یہ خصوصیات ہیں تو چیزیں بہتر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ہمارے دیسی سٹائل میں یہ خصوصیات بہت ہی منفرد اور بہت ہی زبردست اور  مفید  ہیں۔ ہر وقت تنقید کر کے ہر وقت لوگوں کی دل آزاری کر کے ہر وقت سختی کر کے ہم اپنے ادارے کو ترقی نہیں دے سکتے۔ شاید  وقتی طور پر کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا  ہو  لیکن دیر پا اس میں کوئی بھی فائدہ نہیں۔




Tags

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !