ایک باکمال شخصیت سے ملاقات کی داستان

Dr. Ali Sajid
1

ایک باکمال شخصیت سے ملاقات کی داستان

ڈاکٹر نذیراحمد 1963ء میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہ چکے ہیں اور میری زندگی میں یہ دوسری شخصیت ہیں جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ پچاس سے زیادہ لڑکے لڑکیاں ان کے گھر پہنچ گئے جلوس نکال کر۔ بالکل پاس ہی ان کا گھر  تھا ۔ میرے خیال میں  شاید ابھی بھی ان کا گھر وہیں پر ہے ۔ان طلبہ و طالبات کے کچھ مسائل تھے ان کا مطالبہ تھا کہ ہمیں ہاسٹل میں جگہ نہیں مل رہی ہمارے مسائل حل کریں۔ہم غریب ہیں ہم کمرے بھی کرائے پر نہیں لے سکتے۔عموماً پرنسپل کے گھر میں چھ سات کمرے ہوتے ہیں ۔ پرنسپل نے یہ کمال کیا کہ آپنے خاندان کے افراد کو ایک کمرے میں منتقل کر دیا اور تین کمرے لڑکیوں کو دے دیے اور تین کمرے لڑکوں کو دے دیےاور کہا کہ آپ یہاں پر رہیں۔اب تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے کسی ہاسٹل میں بھی رہنے کی ضرورت نہیں ہے اور مہنگے کمرے بھی خریدنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ کمرے تمہارے لیے ہیں تم یہاں پہ رہو۔یہ سہولت آپ کے لیے تب تک ہے جب تک آپ کو مناسب کمرے نہیں مل جاتے۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی اس درجے تک بھی کسی کا احساس کر سکتا ہے۔آپ نے ایسے لوگ دیکھے ہیں؟ میں نے تو آج تک زندگی میں ایسا پرنسپل یا وائس چانسلر نہیں دیکھا۔ اکثر تو یہ ہوتا ہے اگر طلبہ احتجاج کے لیے چلے بھی جائیں وی سی یا پرنسپل کے پاس تو ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ ان طلبہ کو ہمارے گھر کا راستہ دکھایا کس نے؟ اور اگر کوئی زیادہ ہی پاگل ہوگا تو وہ مقدمہ درج کر وا دے  گا ان طلبہ کے خلاف۔ میں نے 1978ء میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا گورنمنٹ کالج لاہور سے۔ اس سال ہمارے پرنسپل ٹی وی پر آئے اور ان کا انٹرویو کیا دلدار پرویزبھٹی  نے۔ تو ہم نے اس وقت دیکھا کہ یہ وہ پرنسپل ہیں جن کے بارے میں ہم سنتے تھے۔ ہم سنتے تھے کہ یہ ڈاکٹر نظیر احمد ہیں جو ولی اللہ ہیں ان کے بارے میں بڑے چرچے سنے ہیں بڑے ان کے واقعات سنے۔ ہم نے ان کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا کہ درویش آدمی تھا پاگل تھا دیوانہ تھا انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ طلبہ کے مسائل  سنتا تھا۔ طلبہ کو حزب مخالف کی طرح نہیں رکھتا تھا۔ وہ طلبہ کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا تھا اور ان کو اپنے  ہی بچے سمجھ کر ان کے مسائل سنتا تھا اور ان کے مسائل کے حل بھی ڈھونڈ کر دیتا تھا۔ ایسا بھی سلسلہ ہوتا تھا اگر کسی بچے کی فیس نہیں ہے  پرنسپل صاحب اپنی طرف سے  اس بچے کو چیک لکھ دیتے تھے اور کہتے تھے قرض حسنہ ہے جب توفیق ہو واپس کر دینا۔ ایک مرتبہ رات آٹھ سے نو بجے کے پروگرام کے دوران میں نے ٹی وی پر پرنسپل صاحب کو دیکھا مجھے دیکھ کر یہ حسرت ہوئی کہ میں ان سے ملوں۔یہ تقریبا 1960ء میں ریٹائر ہو چکے تھے اور میں نے تقریبا 1978 کے قریب قریب ان سے ملاقات کی۔ اس دور میں 17 نمبر ڈائل کرنا پڑتا تھا معلومات جاننے کے لیے۔ میں نے وہ نمبر گھمایا اور ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کا نمبر لیا ہے تو مجھے وہ نمبر مل گیا یہ بہت ہی غور طلب واقعہ ہے۔ اور اگر آپ اس واقعے کی اہمیت کو سمجھ جائیں گے تو آپ بھی ڈاکٹر نظیر احمد بن سکتے ہیں اور میں بھی بن سکتا ہوں۔ میں نے فون اٹھایا اور نمبر  گھمایا ڈاکٹر نزیر احمد صاحب کا ۔ میں نے ہیلو کیا ڈاکٹر صاحب نے فون اٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ بیٹے کون ہو ؟ ڈاکٹر صاحب کو میں نے بتایا کہ میں نے ایف ایس سی کی ہوئی ہے اور اب میں یو ای ٹی جانے کا سوچ رہا ہوں اگر میرا یو ای ٹی میں داخلہ ہو گیا تو میں چلا جاؤں گا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا  آپ کہاں رہتے ہو؟ میں نے انہیں عاجزی سے بتایا کہ سر میں کرشن نگر میں رہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے گائیڈ کیا کہ تم میرے گھر میں آؤ کرشن نگر سے 24 نمبر ویگن آتی ہے اور سوا ایک روپیہ تمہارا لگے گا تم نے میرے گھر سے 50 گز پہلے اترنا ہے اس سے کرایہ کم لگتا ہے۔ 24 نمبر ویگن میرے گھر تک کرشن نگر سے  صرف سوا روپیہ لے گی اور میرے گھر کے  سٹاپ سے تم پہلے اترو گے تو تمہارے چار آنے مزید بچ جائیں گے۔ تم طالب علم ہو تمہارے پاس پیسے کم ہوں گے۔ اس وقت میرے 25 پیسے بچ جائیں گے کیونکہ 25 پیسے کا اس وقت ایک سموسہ آیا کرتا تھا جو آج 60 روپے کا ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مشورے پر عمل کر کے میں نے 25 پیسے کا سموسہ بچا لیا۔ اور جب میں ان سے ملنے جا رہا تھا ان کی ریٹائرمنٹ کو 20 سال ہو چکے تھے یعنی 1978 کے قریب۔ انہوں نے مجھے بے لوث مشورہ بھی دیا اور مجھے وقت بھی دیا ملنے کے لیے ریٹائرمنٹ کے 20 سال بعد بھی۔ میں جب ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچا  انہوں نے   خوش آمدید کہا۔ ان کی بیوی عمر رسیدہ تھی وہ پرانی ٹرالی گھسیٹ کر لے کر ائی اور چائے پیش کی۔ ان کی بیوی کی عمر تقریبا 75 سے 80 سال کے قریب ہوگی۔ میں ان کی وضع داری سے بہت متاثر ہوا اور میں نے یہ کہا کہ یہ تو ولی ہیں دل میں سوچا!۔ میرے جیسے بندے کو اتنی عزت دے رہے ہیں جیسے ڈی سی اور اے سی کوئی عزت دی جاتی ہے یہ کیسے لوگ ہیں؟ کتنا کمال ظرف ہے ان کا۔ میں ان کی یہ وضع داری دیکھ کے بہت حیران تھا۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ میں انگشت بدندان تھا۔میں تو ایک میٹرک کا طالب علم تھا ایف ایس سی کا میرا ابھی رزلٹ بھی آنا تھا۔ 

ایک باکمال شخصت سے ملاقات کی داستان

 میں اپنی بات مختصر کروں ! آدھے گھنٹے کی گفتگو کے بعد وہ مجھے باہر تک خود چھوڑنے کے لیے آئے۔ اور مجھے پھر مشورہ دیا کہ ویگن فلاں جگہ سے جا کے لینا تمہارے 25 پیسے مزید بچیں گے۔ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے انہیں الوداع کیا اور وہیں سے ویگن لی جہاں سے انہوں نے مجھے ہدایت کی تھی اور اپنے 25 پیسے پھر بچا لیے۔

  اس کے بعد ایف ایس سی کا رزلٹ آگیا ۔ میرا یو ای ٹی لاہور  میں داخلہ ہو گیا ۔تقریبا ًچار پانچ سال کے بعد میں یو ای ٹی کی بس میں بیٹھا ہوا تھا اور میں نے دیکھا کہ ایک جگہ سے ایک بزرگ سائیکل چلاتے ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ بزرگ جی پی او چوک لاہور کے پاس سے سے گزر رہے تھے۔ اس سائیکل سوار بزرگ نے ویسٹ کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کوٹ  رنگ بھی اڑا ہوا تھا تقریباً   دھوپ کی وجہ سے سیاہ رنگ گندمی  ہو چکا تھا ۔اور اس بزرگ نے کھدر کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ میری نظر پڑی تو مجھے محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں میں نے اس بزرگ کو دیکھا ہوا ہے ! میں نے  ان سے ملاقات کی ہوئی ہے!  میرے ذہن میں خیالات چلنا شروع ہو گئے۔ میں سوچ ہی رہا تھا تو مجھے یاد آگیا کہ یہ تو ڈاکٹر نظیر صاحب ہے پرنسپل گورنمنٹ کالج۔ فوراً مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے یو ای ٹی کی بس سے چھلانگ لگائی اور ڈاکٹر نظیر صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ اس کے بعد خدا حافظ کہہ کے میں ویگن کی طرف دوڑا اور ویگن لے کر اپنے گھر پہنچ گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے احساس کی شدت اتنا ہے کہ انہوں نے طلبہ کے نارمل سوچنے کے انداز کو بھی  تبدیل کر کے رکھ دیا ۔

تقریباً1964ء یا 1965ء  کے قریب جنرل ایوب خان نے ون یونٹ بنایا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں تھا۔ اس دور میں ایسٹ پاکستان  تھا اور ویسٹ پاکستان میں جو چار صوبے تھے ان کو ون یونٹ بنا دیا گیا تھا اور لاہور کو اس کا ہیڈ کوارٹر مقرر کیا گیا تھا۔ یہاں سے یہ چاروں صوبے کنٹرول ہوتے تھے۔ لاہور میں وحدت کالونی بھی اسی دور میں بنی تھی۔ اس وقت جو ون یونٹ کا گورنر تھا امیر محمد خان کالا باغ تھا۔ بہت ہی ظالم اور سخت مزاج کا آدمی تھا۔ اس کو ڈاکٹر نظیر صاحب کے بارے میں علم ہوا تو یہ شخص اتنا مقبول ہوتا جا رہا ہے اس کی کیا خصوصیات ہیں؟۔ کسی نے اس گورنر کو مخبری کی ڈاکٹر نظیر صاحب کے بارے میں تو اس گورنر نے ڈاکٹر نظیر صاحب کو ڈسمس کر دیا۔ تقریباً سو یا ڈیڑھ سو سال کے گورنمنٹ کالج کی تاریخ میں وہاں پہ کبھی ہڑتال نہیں ہوئی۔ اور ابھی تک بھی امکانات نہیں ہیں کیونکہ اس کی اپنی  روایات ہیں۔ اس گورنر کے فیصلے کے خلاف اس سال صرف گورنمنٹ کالج کے لڑکے اور لڑکیوں نے مل کر  ہڑتال کی ۔ اس ہڑتال میں ایک شخص نے سی ایس ایس کیا اور سیکرٹری ریٹائرڈ ہوا اور ایک روز  اسلام آباد میں ملاقات کے دوران اس نے یہ مجھے واقعہ سنایا تھا۔ اس نے کہا کہ اس ہڑتال کے دوران ہم طلبہ مل کر گورنر ہاؤس تک پیدل گئے۔ اور اس کے بعد ہم تمام لڑکے لڑکیاں کالج کے گورنر ہاؤس کے سامنے بیٹھ گئے۔  ہمارا وہاں ہمارا یہ مطالبہ نہیں تھا کہ ہمارا پرنسپل واپس کرو! ۔ بلکہ وہاں سب طلبہ کا یہ مطالبہ تھا کہ ہمارا باپ واپس کرو !۔ اس وقت کا گورنر جو  بہت سخت مزاج تھا اس نے  بھ ان طلبہ کے اوپر لاٹھی چارج نہیں  کروایا اور نہ ہی ان طلبہ پر مقدمے کرائے۔ اگلے ہی دن گورنر نے فیصلہ واپس  لے لیا اور ڈاکٹر نظیر احمد صاحب پرنسپل کے عہدے پر بحال کر دیا۔


Post a Comment

1Comments

Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !