محترم عمر غزالی کے ساتھ ایک نشست
میں بہت شکر گزار ہوں عمر غزالی صاحب کا جو کراچی سے لاہور آئے اور ہمارے لیے وقت نکالا۔ اس قوم کی بہتری کی خاطر عمر غزالی صاحب نے ملک گیر دورے کیے اور اپنے خرچے کے اوپر لوگوں کو شعور دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عمر غزالی صاحب سے ہم بہت ساری علمی تسکین حاصل کریں گے۔ بہت سارے علمی معاملات حل کروائیں گے جن میں ہم خود بھی جاہل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ہمارے ملک میں یہ عام تصور ہے کہ کوشش نہیں کرنی, محنت نہیں کرنی مگر اللہ پر توکل اور قناعت کرلینا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے رزق کا وعدہ کیا ہے لہذا گھر بیٹھے بیٹھے آپ کو سب کچھ مل جائے گا. توکل اور قناعت کا مفہوم کیا ہے؟ کیا جو ہم مفہوم سمجھ رہے ہیں وہ درست ہے ؟یا کچھ اور ہے آپ پلیز رہنمائی کیجئے۔
ڈاکٹر عمر غزالی: ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے مجھے موقع دیا ہے۔ میں عرض کروں کہ جب کوئی لفظ تعمیر کی شکل میں ہوتا ہے اس وقت اس کا مفہوم اور معنی مختلف نظر آتا ہے اور جب وہی لفظ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کے ایک مفہوم دیتا ہے اور جامع عید کا تصور دیتا ہے اس وقت اس کی حالت مختلف ہوتی ہے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب اس لفظ کو ہم انفرادی طور پر دیکھتے ہیں تو اس کے اندر ہمیں اجتماعی تصور نظر نہیں آتا بڑی تصویر نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے ہمارا مفہوم محدود ہوتا ہے۔
اگر میں توکل کے لفظ سے آغاز کروں تو سب سے پہلے اس حوالے سے ایک شعر میں بیان کرنا چاہوں گا کہ
توکل کا یہ مطلب کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کوشش نہ کریں آپ منصوبہ سازی نہ کریں آپ محنت نہ کریں۔ توکل کا بنیادی مقصد انسان کے اندر عاجزی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی کامیابی کا سارا مرکز اپنے آپ کو قرار نہ دیں۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اندر عاجزی پیدا کر کے اس ساری کامیابی کا حق اس کو دینا ہے جو اس کا خالق ہے جو تمہارا خالق ہے جو اس پوری کائنات کا مالک اور خالق۔ توکل کا یہ مطلب ہے کہ کوشش بھی آپ نے کرنی ہے ارادہ بھی آپ نے کرنا ہے محنت بھی آپ نے کرنی ہے منصوبہ سازی بھی آپ نے کرنی ہے اور اس منصوبے پر عمل درآمد بھی آپ نے کرنا ہے اور قدرت کو بھی اس میں مدنظر رکھنا ہے تاکہ قدرت آپ کی عاجزی کو دیکھ کر اپنی رحمت کا سلسلہ جاری رکھے۔
توکل عاجزی کا باعث ہے اور عاجزی دو چیزوں سے آتی ہے سب سے پہلے یہ کہ ہر چیز کا مرکز خدا کو قرار دیں اور دوسری بات یہ کہ جب بھی آپ کوئی کام کریں گے اس میں بہت ساری بار غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی اس غیر یقینی صورتحال کو دور کرنے کے لیے آپ کو خدا کا سہارا ضرور چاہیے۔ پھر جا کر آپ کے اندر توکل اور عاجزی کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔
اللہ تعالی سورہ ال عمران میں فرماتا ہے
مفہوم یہ ہے کہ جب تم عزم کر لو اس کے بعد اللہ پر توکل رکھو
عزم یہ ہوتا ہے کہ جو کام آپ نے کرنا ہے آپ نے اس کا ارادہ اور نیت کی اس پر کام کرنے کا آپ نے طریقہ بھی سیکھا اس کام کے لیے جتنی مشکلات آئیں گی اس کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کیا اس کے لیے جو بھی قربانی ہوگی اس کے لیے بھی آپ تیار رہے جب یہ صورتحال آپ کے اندر پیدا ہو تو وہ عزم بنتا ہے۔ جب آپ نے یہ مراحل طے کر لیے ہیں کہ اس کے بعد آپ کا کام ہے کہ اللہ پر توکل کرین۔
آپ اپنے حصے کا کام مکمل کر چکے جس میں آپ نے ارادہ کرنا تھا اس کی منصوبہ سازی کرنی تھی اس کی قربانی کے لیے تیار رہنا تھا اس کے بعد اپ نے اللہ پر بھروسہ کرنا۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ رہنمائی فرمائیے گا کہ کیا توکل میں مشاورت کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے؟
ڈاکٹر عمر غزالی: ڈاکٹر صاحب جب ہم منصوبہ بناتے ہیں اس میں مشاورت بھی اہم پہلو ہے اس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر علی ساجد: دانائی اور حکمت کیا چیز ہے اور یہ کس کے پاس ہوتی ہے کیا اس کا تعلق تعلیم اور تربیت سے ہے؟ مشاورت کے لوازمات کیا ہیں؟
ڈاکٹر عمر غزالی: شیخ سعدی نے اس حوالے سے فرمایا ہے
بزرگی با عقل است نہ بے سال
تونگری بدلست ناب مال
شیخ سعدیؒ کا کہنے کا مطلب ہے کہ بزرگی کا تعلق عمر سے نہیں ہے عقل سے ہے بڑی عمر کا مطلب نہیں ہے کہ وہ بڑی عقل کا مالک بھی ہو اور سخاوت کا مطلب دل سے ہے مال سے نہیں ہے لازمی نہیں کسی کے پاس دولت ہو اور وہ سخی بھی ہو۔ ہمارے معاشرے میں دانا اور بینا کا لفظ استعمال ہوتا ہے ایسے شخص کے لیے جس کی فہم و فراست ہو اس کا تعلق تعلیم سے نہیں ہے اس کی ذہنی صلاحیت سے ہے کہ وہ چیزوں کے ظاہر سے اس کا باطن بھی دیکھ لیتا ہے۔ مشورے کے لیے ضروری ہے کہ اپ جس سے مشورہ لیں وہ دانہ اور بینا ہونا چاہیے۔ دانائی کا مطلب ہے کہ ایک چھوٹے سے عمل کو بڑی وسعت میں دیکھنا۔ اب اس کو اگر جمع کر کے بیان کیا جائے تو وہ واقعہ جب پیغمبر اسلام کی عمر 35 سال تھی اور حجرہ اسود کا واقعہ پیش آیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی ہی حکمت اور دانائی کے ساتھ اس عمل کے دور رس اثرات دیکھتے ہیں فیصلہ سرانجام دیا جس سے تمام لوگوں کی عزت نفس بھی محفوظ رہی انا بھی محفوظ رہی اور مسئلے کا حل بھی ہو گیا۔
مشورے میں دانائی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فریق کے مفاد کو بھی مدنظر رکھا جائے اس کے حقوق کو بھی مد نظر رکھا جائے اور ان کے دیگر معاملات کو بھی مد نظر رکھا جائے اور معاشرے کے ایک ایک مسئلے اور اس کے ارد گرد کے قومی حالات کو بھی دیکھا جائے نہ صرف یہ کہ بین الاقوامی حالات کو بھی ضرور مد نظر رکھا جائے۔
ڈاکٹر صاحب آپ نے پوچھا کہ مشورے کے لوازمات کیا ہیں ؟ اس حوالے سے علامہ اقبال کا ایک شعر ہے
سینہ روشن تو ہے سوز و سخن ہے عین حیات
نہ ہو روشن تو ہے سخن مرگ دوام اے ساقی
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کا سینہ روشن ہے اس کی گفتگو اس سے بات چیت مسائل کو حل کر دے گی۔ اور اگر سینہ روشن نہیں ہے تو یہ بات چیت مرض کی طرح ہے۔ مشورہ کے لوازمات یہ ہیں کہ مشورہ لینے والے کے اندر کم از کم یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ یہ پہچانے کہ مشورہ اس نے لینا کس آدمی سے ہے۔ جب قوموں کا زوال شروع ہو جاتا ہے تو ان کی عقل اتنی پست ہو جاتی ہے کہ ان کے مشورے لینے کا معیار صرف مشہوری ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جو چیز مشہور ہے رائج ہے وہی چیز درست ہے۔ جو قوم شہرت کو معیار بنا لیتی ہے اس قوم کا علاج اسانی سے ممکن نہیں ہوتا۔
اگر ہم اپنے اصلی موضوع قناعت کے اوپر واپس ائیں تو میں اس کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ اپنے ارادے منصوبے تیاری کے بعد جو نتیجہ آئے اس کو قبول کرنے کا نام قناعت ہے
گر توکل اور تقدیر کے حوالے سے بات کی جائے تو مجھے علامہ اقبالؒ کا ایک شعر یاد اتا ہے
تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند
نباتات اور جمادات صرف قدرت کے نظام کے تحت چلتے ہیں جبکہ انسان قدرت کے احکامات کے تحت چلتا ہے انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ قدرت کے احکامات کے لیے جتنی کوشش کرے گا اتنا ہی اسے کچھ حاصل ہو۔
میرا سوال ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ محنت کیے بغیر کوشش کرنے کے بغیر نتائج تقدیر پہ ڈال دیتے ہیں کیا یہ درست ہے اس پہ آپ روشنی ڈالیں؟
ڈاکٹر عمر غزالی: انسان زیادہ تر سستی اور کاہلی کی طرف رجحان رکھتا ہے جب اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے تب وہ متحرک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یا پھر جب وہ لالچ محسوس کرتا ہے تب وہ متحرک ہوتا ہے۔ سستی اور کاہلی کے ماتحت رہنا یہ تقدیر نہیں ہے تقدیر یہ ہے کہ آپ اپنی کوشش پوری کریں اس کے بعد جو نتائج ہیں ان پہ آپ قائم رہیں۔
ڈاکٹر علی ساجد: اس حوالے سے مجھے حضرت علی کا ایک واقعہ یاد اتا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ جب تقدیر ہماری ہمارے پیدا ہونے سے پہلے لکھ دی گئی ہے تو ہم کوشش کیوں کریں اس حوالے سے حضرت علیؓ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اپ کی تقدیر میں یہ لکھا ہو کہ آپ کو کوشش کرو گے تو آپ کو کچھ ملے گا اور اگر کوشش نہیں کرو گے تو نہیں ملے گا لہذا کوشش آپ نے ہر حال میں کرنی ہے۔
اب اس کوشش کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی میرے ذہن میں آتا ہے کہ مکہ کے علاقے میں پانی موجود ہونا ناممکن نظر آتا تھا لیکن حضرت ہاجرہ نے کوشش کی اور وہ کوشش قدرت کو اتنی پسند ائی کہ اس کے لیے قدرت نے پانی میسر کر دیا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوشش کرنے سے ہی تقدیر لکھی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عمر غزالی: انسان کی بلندی کا تعلق اس کے بلند حوصلے اور عزم کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ عزم کا تعلق توکل اور بھروسے سے ہے جتنا بڑا عزم ہوگا اتنا ہی خدا پر اتنا توکل اور بھروسہ ہوگا اور یہی چیز قدرت کو پسند ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: کلاس سے کیا مراد ہے نوجوان اکثر پوچھتے ہیں؟
ڈاکٹر عمر غزالی: کلاس سے مراد کامیابی ہے اس سے مراد تاج ہے اور وہ اس کو ملتا ہے جو اونچا سوچتا ہے جس کا عزم بلند ہوتا ہے۔ کامیابی کا گہرا تعلق انسان کے عزم اور نظریات سے ہوتا ہے اور نظریات کا تعلق انسان کی سوچ سے ہوتا ہے سوچ درست ہوگی تو نظریات درست ہوں گے نظریات درست ہوں گے تو عزم درست ہوگا اور کامیابی ملے گی۔