ڈاکٹر اخلاق حسین شمسی کے ساتھ ایک نشست

Dr. Ali Sajid
0

 ڈاکٹر اخلاق حسین شمسی کے ساتھ ایک نشست

ہم نے اس سلسلے کا آغاز کیا ہے کہ ایسے لوگوں سے ملاقات ہو جن کی کہانی سن کر نوجوانوں میں امید اور جذبہ پیدا ہو اور ان کو یہ سمجھ آئے کہ ہمیشہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا ترقی نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگ جو دیہاتوں سے چل کر آئے ہیں ۔جو بالکل غربت کی حالت میں چل کر آئے وہ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ اس وقت میں ڈاکٹر اخلاق شمسی صاحب کے ساتھ ہوں۔ ڈاکٹر اخلاق شمسی صاحب آج بھی 70 سال کی عمر میں خدمت کر رہے ہیں معاشرے میں بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر اخلاق حسین شمسی کے ساتھ ایک نشست
ڈاکٹر اخلاق حسین شمسی کے ساتھ ایک نشست

السلام علیکم ڈاکٹر اخلاق شمسی صاحب آپ کا بہت شکریہ آپ نے وقت دیا ہے۔ 

ڈاکٹر اخلاق شمسی صاحب: وعلیکم السلام محترم ڈاکٹر علی ساجد صاحب آپ کا بہت شکریہ۔

ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر اخلاق شمسی صاحب آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے کہ آپ نے اپنی زندگی کا آغاز کہاں سے  کیا اور سفر کیسے طے  کیا؟ 

ڈاکٹر اخلاق شمسی: میرا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔ میں 1954 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوا۔ میرے والد محترم سید منظور حسین شمسی ایک عالم بھی تھے اور معلم بھی تھے۔ میری والدہ کا تعلق بھی تدریس سے تھا۔ میری والدہ کا نام سیدہ فیض بتول ہے۔ میرا آبائی گھر جس میں میرے والد اور والدہ کی بہت محنت شامل ہے وہ ہم نے ایک جامعہ سیدہ فیض بتول کے نام سے مختص کر دیا تھا۔ اب وہاں پر بچے اور بچیاں مفت تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ 

ابتدائی تعلیم ہم نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے حاصل کی۔ تقریباً 1975ءمیں میرا پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ ہوا۔ میرے بڑے بھائی پروفیسر طاہر حسین شمسی وہ شاعر اہل بیت بھی تھے اور وہ شاعر ملت بھی تھے۔ میرے والد صاحب کا ایک خیال تھا کہ تعلیم سے انسان تبدیل ہو جاتا ہےیا اس کو یوں کہنا چاہیے کہ تعلیم کے ذریعے سے ہی انسان کو تبدیل ہونا چاہیے۔ 

بس کے دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی  کو میسر نہیں انساں ہونا

یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہر انسان میں انسانیت ہو۔ کمال انسان وہی ہے جس کے اندر انسانیت ہوگی۔ انسانیت ایک تو تعلیم سے آتی ہے اور دوسری تربیت سے آتی ہے۔ میرے والد میری والدہ اور میرے بڑے بھائی ہمیشہ تعلیم اور تربیت کو ہی ساتھ لے کر چلتے تھے۔ 

میرا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں 1975ء کو سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ میں ہوا۔ ڈاکٹر رشید چوہدری صاحب کا میں ذکر کرنا چاہوں گا جو کہ ایک بہت بڑی شخصیت ہے اور ماہر نفسیات تھے انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ میں آؤں۔

لوگوں کے کام آنا ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ جب آپ کسی کے کام آتے ہیں تو آپ کو دلی سکون حاصل ہوتا ہے۔ دوسروں کے لیے کام کرنا اور بالخصوص غریبوں اور مسکینوں کے لیے کام کرنا ہمیں گھر والوں نے بچپن سے سکھایا تھا۔ 1975ءمیں میں لاہورمقیم  ہو گیا۔ 

ٹوبہ ٹیک سنگھ کے حوالے سے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے جاوید قریشی صاحب تھے سیکرٹری پنجاب انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ میں توبہ ٹیک سنگھ کا نام تبدیل کر کے "خیراآباد" رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ جناب "لائل پور" کا نام فیصل آباد رکھا گیا تو یہ مجھے بالکل پسند نہیں آیا کیونکہ جس نام پہ وہ بنا ہے اس کو ویسے ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ "ٹوبہ ٹیک سنگھ" کا نام بدلنا چاہتے ہیں تو آپ اس سے پہلے گنگا رام ہسپتال کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام رکھیں گلاب دیوی ہسپتال کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام رکھ دیں۔ جس کی جو خدمات ہیں اور ان خدمات کی بنیاد پہ اس کا جو بھی منصب بنتا ہے وہ اس شخص کو ملنا چاہیے۔ اس کایہ حق بنتا ہے اس میں رنگ نسل مذہب کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ 

ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں گوجرہ میں لیکچرار منتخب ہو گیا۔ گوجرہ کا علاقہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قریب پڑتا ہے۔ گوجرہ کے بعد میری پوسٹنگ لاہور ایم اے او کالج میں ہو گئی۔ ایم اے او کالج میں ترقی کے بعد مجھے ایسوسی ایٹ پروفیسر لگا دیا گیا۔ اس کے بعد میں بطور پروفیسر کام کرتا رہا۔ 1995ء میں میں گورنمنٹ کالج ماڈل ٹاؤن میں بطور پرنسپل منتخب ہوا۔ جب میں نے یہ کالج چھوڑا اس وقت یہ پوسٹ گریجویٹ کالج بن چکا تھا۔ یہاں پر خدمات سرانجام دیتے ہوئے مجھے بیسٹ پرنسپل کا ایوارڈ بھی ملا۔ اور یہیں سے مجھے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا۔ گورنمنٹ کالج فار بوائز ماڈل ٹاؤن میں میں نے تقریبا 20 سال کا عرصہ گزارا۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: اخلاق شمسی صاحب آپ یہ بتائیے کہ ہمارے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے نوجوانوں میں کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ملک ٹھیک نہیں ہے ملک ہمیں سپورٹ نہیں کرتا ہمیں ایک دو سال میں ہمارے پاس گاڑی یا بنگلا ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو رہا اس کی کیا وجہ ہے؟  جب آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا کیا آپ کے پاس کروڑوں کی ملکیت تھی یا آپ نے محنت کی جدوجہد سے یہ مقام حاصل کیا؟

ڈاکٹر اخلاق شمسی: ڈاکٹر صاحب ہمارے والدین کا ایک مشن تھا جو انہوں نے ہمیں دیا تھا سب سے پہلے کہ محنت کرنی ہے اور دوسرے نمبر پہ لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور فیض جاری اور ساری رہنا چاہیے۔ فیض کے بارے میں میں بتاؤں فیض کا تعلق سخاوت سے ہے ،محبت سے ہے خدمت سے ہے لوگوں کی بھلائی سوچنے میں ہے۔ اس کو مختصر طور پہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے پاس قدرت کی طرف سے جو کچھ ہے آپ لوگوں میں بانٹنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ فیض ہے۔ سخاوت محبت مروت یہ ایسی چیزیں ہیں جس سے دلی سکون میں اضافہ ہوتا ہے راحت ملتی ہے اور رزق میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ 

جب میں لاہور آیا تو میرے پاس چند سکے ہوا کرتے تھے۔ لیکن اعتماد اور محنت کا جذبہ موجود تھا۔ چاہے طالب علمی کا زمانہ ہو یا عملی زندگی کا بھرپور انداز سے کام کیا ہے۔ میں کوشش کرتا تھا کہ صحیح سوچ کے ساتھ صحیح عمل کیا جائے۔ اب اسی کے سبب لاکھوں طلبہ ایسے ہیں جن کی خدمت کی اور اب وہ لاکھوں طلبہ اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میرا یہ خیال ہے کہ لوگوں کو مدد میں پیسے نہ دیں ان کو علم دیں ان کو ہنر دیں ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔ ایسے افراد پیدا کریں جن کا معاشرے میں اونچا مقام ہو۔ معاشرے میں اونچا مقام صرف اس شخص کا ہوتا ہے جو صرف اپنے گھر کے بارے میں نہیں سوچتا دوسروں کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ چند چیزیں معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہیں تکبر حسد لالچ۔ جتنا ہو سکے کسی بھی شخص کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انا ضد کا دوسرا نام ہے اور اس کا بڑا درجہ غرور اور تکبر ہے۔ حسد کے بارے میں میں بتاؤں حاسد وہ ہوتا ہے جو اللہ کی تقسیم پہ ناراض ہوتا ہے۔ حاسد کے بارے میں حضرت علی کا قول ہے کہ حاسد کو کچھ نہ کہو وہ خود حسد کی آگ میں جل رہا ہے یہ اسی کے لیے کافی ہے۔ 

اللہ کی رحمت بے پناہ ہے اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ میں 1975ء سے لے کے آج تک نوجوانوں کے لیے کام کر رہا ہوں نوجوانوں کے ساتھ وقت گزار ہوں۔ گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج ماڈل ٹاؤن کے بعد میں سپیریئر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن گیا ہے۔ سپیریئر یونیورسٹی میں میں نے تقریباً چھ سال خدمت سرانجام دی۔ سپیریئر یونیورسٹی میں میں بطور ریکٹر، پرو ایکٹر اور ڈین بھی کام کر چکا ہوں۔ اور مجھے وہاں پہ یہ محسوس ہوا کہ وہاں پہ سب کچھ میں ہوں اور یہ عبدالرحمن صاحب کی محبت ہے۔ سپیریئر یونیورسٹی میں ہم نے یہ کوشش کی کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی بھی کی جائے۔ ہم یہ کہتے تھے کہ دنیا میں جو چیز انقلاب لا سکتی ہے وہ علم ہے۔ 

میرا بیٹا شمالی کوریا میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ 20 سال پہلے کوریا کا کوئی نام و نشان نہیں تھا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے شہر لاہور میں کوریا کی گاڑیاں نظر آتی ہیں موبائل نظر آتے ہیں کوریا کی بنی ہوئی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں اتنی ترقی اس نے کیسے کر لی۔ میرے بیٹے نے کہا کہ میں نے یہ سوال اپنے پروفیسر صاحب سے پوچھا تھا انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ ترقی اخلاقیات کی بنیاد پر کیے۔ 

میرا یہ خیال ہے کہ اپنے بچوں کو آپ نے احترام سکھانا ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ آپ بچوں کا بھی احترام کریں اس کے بغیر آپ بچوں کو احترام کرنا نہیں سکھا سکتے۔ جب آپ کسی محفل میں جائیں تو بہتر یہ ہے کہ آپ کو بولنا نہ پڑے آپ کا کردار بتائے کہ آپ کی شخصیت کیسی ہے۔ تو ساری عمارت پہلی اینٹ کے اوپر کھڑی ہوتی ہے پہلی اینٹ جس طرح کی ہوگی پوری عمارت ویسے ہی چلے گی تو ہمارے کردار کی بنیاد اگر اخلاقیات پر ہوگی تو ہمارا کردار کمال ہوگا۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !