پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ ایک نشست
حصہ اول
میں (ڈاکٹر علی ساجد) خوش قسمت ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ پروفیسر ظفر معین ناصر صاحب اس وقت متحدہ عرب امارات میں اپنی تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا پچھلے 20 سال سے اچھا تعلق ہے۔ میں نے ان کے اندر انسانی ہمدردی ، محنت اور لگن کا بے پناہ جذبہ دیکھا۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی خدمات پر بجا طور پر فخر ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے گزارش کروں گا کہ آپ ہمارے نوجوانوں کے لیے اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ نے اپنے کیر ئیر کا آغاز کہاں کیا اور کیسے کیا؟
![]() |
پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ ایک نشست |
پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر : ڈاکٹر (علی ساجد )صاحب آپ کا بہت شکریہ !
ڈاکٹر صاحب آپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا آپ کے ساتھ تعلق تقریباً 20 سال پرانا ہے۔ اس میں بہت سارے اُتار چڑھاؤ آئے لیکن ہماری محبت آج بھی قائم ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے پاکستان کے مسائل کے اوپر کھل کر بات کرنے کی اجازت دی۔ مجھے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔
پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب یہ آپ کی اعلٰی ظرفی ہے ۔آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ نے ہمیں موقع دیا۔ ہم اس گفتگو میں کوشش کریں گے کہ تعلیمی مسائل پر بحث کریں اور ان کے حل پیش کریں نوجوانوں کے لیے اور آئندہ نسل کے لیے۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے بڑی گاڑیوں اور بنگلوں سے اپنے کیریئر کا آغاز نہیں کیا۔ جائیداد آپ کے پاس نہیں تھی۔ بہت سادگی سے آپ نے آغاز کیا اور ترقی کی منزلوں تک پہنچے آپ نوجوانوں کو کیا بتانا چاہیں گے کہ کیا کامیاب ہونے کے لیے دولت مند ہونا ضروری ہے یا کوئی عام سا آدمی بھی ترقی کر سکتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر علی ساجد صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا کہ ہم سب نے نچلی سطح سے محنت کی۔ ہم کوئٹہ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد میرے والدین راولپنڈی میں منتقل ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم میں نے راولپنڈی سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج اصغر مال سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد میں قائد اعظم یونیورسٹی چلا گیا۔ اس وقت ایسے حالات نہیں تھے کہ والدین اپنے بچوں کو بڑی بڑی گاڑیاں دے سکیں اگر والدین کسی کو سائیکل بھی دے دیتے تو یہ اس کے لیے بڑی بات تھی۔ اکثر طلبہ کو پیدل چلنا پڑتا تھا۔ گورنمنٹ کی بسیں اس وقت بہت بہترین سفر کا ذریعہ تھا۔ ایسی صورتحال میں، میں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے پائڈ PIDE میں کام کرنا شروع کیا۔ پائڈ PIDE "پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ ان اکنامکس" پاکستان کا ایک تحقیقاتی ادارہ ہے۔ اس پہ میں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ جو بھی اس ادارے میں آتا تھا اس کو پالیسی بنانے میں بہت مہارت اور تجربہ حاصل ہوتا تھا۔ اسی ادارے سے ہو کر بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے لوگ ہمارے پہنچے ۔ میں نے اپنے کیریئر کا آغاز اسی ادارے سے شروع کیا بطور ماہر معاشیات کی حیثیت سے۔ 1990ء میں مجھے منتخب کیا گیا امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ماسٹرز کرنے کے لیے۔ انتخاب کے بعد میں کینساس یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے لیے چلا گیا۔ میری بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ نے مجھے پی ایچ ڈی کے لیے سکالرشپ دے دی۔ اور وہیں پر مجھے پڑھانے کا موقع بھی دیا گیا۔ اگلے پانچ سال تک میں نے وہاں پر پی ایچ ڈی بھی کی اور پڑھاتا بھی رہا۔ 1997ء میں، میں پاکستان واپس آگیا اور اسی ادارے کو دوبارہ جوائن کیا۔ اس وقت ہماری ترقی کے لیے ضروری تھا کہ ہمیں کوئی تحقیقاتی مراسلہ جاری کرنا تھا۔ میں نے ایک سال کے اندر اپنا ہدف پورا کیا اور ریسرچ پیپر شائع کیا۔ اس کی مدد سے میں گریڈ 18 اور 19 تک تقریباً دو سالوں تک پہنچ گیا۔ مزید ترقی کے لیے آپ کو تقریباً چار پانچ ریسرچ آرٹیکلز کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ انٹرنیشنل کانفرنسز کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ہدف بھی میں نے پورا کیا ہے۔ اور جولائی 2013ء کو میں بیسویں گریڈ پر ترقی کر گیا۔ منسٹری آف لیبر اینڈ مین پاور آف گورنمنٹ آف پاکستان کا ایک سیل تھا 2006ء میں۔ دو سال میں ہم نے روزگار کے لیے منصوبے بنائے اور پیش کیے۔ 2008ء میں ہماری امیگریشن ،لیبر اور ہیومن ریسورس کے اوپر جو بھی پالیسیز تھی وہ کیبنٹ نے منظور کی۔ لیکن اس کے بعد حکومت تبدیل ہوئی تو ہماری وہ پالیسیز عمل میں نہیں آ سکیں۔ اس کے بعد تقریباً 2008ء میں میں واپس PIDE میں چلا گیا۔ اس وقت پائڈ PIDE کو ایک بہترین ادارہ بنانا تھا۔ میں اس پروجیکٹ کا پروجیکٹ ڈائریکٹر بن گیا۔ میں تحقیقات بھی کرتا رہا اور اسی طرح مجھے ڈین آف ڈیپارٹمنٹ بھی بنا دیا گیا۔ پائڈ میں اس وقتMBA کے پرو گرام میں پہلے سمسٹر میں پانچ سے چھ طلبہ آتے تھ۔ے جب میں ڈین بنا میں اس ابتدائی تعداد کو 35 تک لے گیا اور سیکنڈ سمسٹر میں ہم اس کو 75 طلبہ تک لے گئے۔ ہمارے ادارے میں بہت اچھے اچھے طلبہ آئے جنہوں نے عملی زندگی میں بڑے بڑے اداروں میں کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں جن پر ہمیں آج بھی فخر ہوتا ہے۔ ہم نے انتظامی امور کو بہتر کرنے کی پوری کوشش کی اور نئے سے نئے اور بہتر سے بہتر طلبہ کو کشش دینے کے لیے ہم نے پوری کوشش کی۔ پائڈ PIDE میں رہتے ہوئے تقریباً میں 2011ء گریڈ پر چلا گیا۔ 2012ء میں متحدہ عرب امارات میں ایک امریکن یونیورسٹیز نے میرے ایک دوست کے ذریعے سے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے آنے کی پیشکش کی۔ میں نے پائڈ سے چھٹی لی اور امریکن یونیورسٹی میں بطورڈین میں منتخب ہو گیا اور متحدہ عرب امارات میں منتقل ہو گیا۔ 2015ء تک میں نے وہاں پہ خدمات سر انجام دی۔ 2016ء میں میں پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب ہوا۔ 2018ء تک میں پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہا۔ اس کے بعد امریکن یونیورسٹیز نے دبئی میں مجھے دوبارہ بلا لیا ہے وہاں پر میں 2020 ءتک رہا۔ کرونا کی وباء سے پوری دنیا متاثر ہوئی اس سے میں بھی متاثر ہوا اس دوران میں پاکستان واپس آگیا۔ جب میں نے پنجاب یونیورسٹی کو چھوڑا تھا اس وقت سالار یونیورسٹی لاہور سے مجھے پیشکش آئی اس کو بہتر کرنے کے لیے۔ میں ان سے ابھی بھی منسلک ہوں لیکن ان کے کچھ معاملات تھے جس کی وجہ سے وہ ا شروع نہیں ہو سک۔ے لیکن جیسے ہی ان کے معاملات شروع ہوں گے تو میرا سلسلہ بھی ان کے ساتھ ابھی جاری ہے تو تب تک میں نے مناسب سمجھا کہ مجھے جو بھی باہر سے موقع ملتا ہے تو میں اس سے فائدہ اٹھاؤں۔ اس کے بعد مجھے ایک اور یونیورسٹی نے دبئی میں بلایا بطور پروفیسر تو میں وہاں پہ چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب یہ میری زندگی کا سفر ہے مختصر طور پہ کہ میں نے کہاں سے آغاز کیا اور کیسے یہاں تک پہنچا۔
پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد: بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب آپ نے بڑی جدوجہد کی محنت سے لگن سے ایمانداری کے ساتھ کام کرتے رہے اور یقینی سی بات ہے کہ آپ نے اپنے اصولوں کی خاطر اپنے قربانیاں بھی دی ہیں اور یقیناً آپ کی زندگی آپ کا سفر نوجوانوں کے لیے امید کی راہ ہے۔ آپ ان گنے چنے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی محنت مشقت اور سفر کے دوران بہت اچھی روایات قائم کیے ہیں جن پر ہم لوگوں کو بجا طور پر فخر حاصل ہے۔ جب آپ پنجاب یونیورسٹی میں تھے مجھے یاد ہے کہ آپ نے وہاں پہ بہت اچھی روایات قائم کیں وہاں پہ ثقافت کو پروان چڑھایا اخلاقی اقدار کی پرورش کی اور تعلیم کے حوالے سے بہترین اقدامات کیے۔