پروفیسر ڈاکٹر رمضان کے ساتھ نشست
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اج ہم ڈاکٹر رمضان صاحب کے ساتھ ہیں جن کے میں مداحوں میں سے ایک ہوں۔ ان کی محنت ان کی لگن ان کا جذبہ ہمیں متاثر کرتا ہے۔ آج ہم ان سے جاننے کی کوشش کریں گے کہ ہم اپنی تعلیمی میدان میں کیسے آگے سکتے ہیں اور اس میں کیا مشکلات ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟
![]() |
پروفیسر ڈاکٹر رمضان کے ساتھ نشست |
السلام علیکم ڈاکٹر رمضان صاحب آپ کیسے ہیں؟
ڈاکٹر رمضان: وعلیکم السلام ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ اپ کا۔
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب اب درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور 40 سال سے اپ اسی شعبے میں ہیں اپ نے یہ مقام کیسے حاصل کیا ہے اپنے سفر کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
ڈاکٹر رمضان: ڈاکٹر (علی ساجد )صاحب میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ ہمارے بزرگ جو انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں پر آئے تھے وہ ہمیں بتاتے تھے کہ کس طرح سے جو لوگ تعلیم یافتہ تھے وہ آگے چلے گئے اور جو تعلیم حاصل نہیں کر سکے ان کو کتنا نقصان ہوا۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے بھی اپنے گھر کے لیے اور اپنے ملک کے لیے کچھ ایسا کرنا ہے جس میں بھلائی ہو اور فلاح ہو اور ترقی ہو۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ میں نے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے کرنا کیا ہے؟ یہ تو طے تھا کہ اپنی حد تک جتنا کچھ ہو سکے گا ہم بھلائی کی کوشش کریں۔ ہم دیہات سے تعلق رکھتے تھے اور ہمارے والدین کے پاس فیس بھی نہیں ہوتی تھی جمع کروانے کے لیے۔ ابتدائی تعلیم میں نے سیالکوٹ سے حاصل کی ماسٹر میں نے پشاور یونیورسٹی سے کیا تھا۔ پوسٹ گریجویٹ میں نے پرائیویٹ کیا تھا۔ لائبریری سائنسز میں میں پہلا گولڈ میڈلسٹ تھا۔ پشاور یونیورسٹی میں جب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رہا تھا اس وقت میں ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ پہلی جاب میں نے پاکستان فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سے کی تھی 17 گریڈ کی۔ وہاں میں نے کام بہت اچھا کیا۔ مجھے بہت سراہا گیا۔ لیکن میں آٹھ مہینے سے زیادہ وہاں پہ نہیں رہا۔
میں شروع سے محنت اور خلوص سے کام کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں روداد خان صاحب کے پاس چلا گیا مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کا کیا پروٹوکول ہوتا ہ۔ے مجھ سے وہ حیران ہو کے پوچھتے ہیں کہ آپ یہاں کیسے آئے تو میں نے عام سے انداز میں جواب دیا کہ سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں۔ تو اس طرح اپنے مسئلے کو حل کرنے کے لیے میں نے پوری کوشش کی ۔ وہاں میں نے ان سے کمپیوٹر بھی لے لیا اور کمپیوٹر پہ کام کیا ۔
وہاں پہ امریکن سینٹر سے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے انہوں نے میرا کام دیکھا انہوں نے میرے کام کو سراہا اور مجھے پیشکش کی کہ آپ ہمارے ساتھ کام کرو۔ میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال ان کو ہی کرنا آتا ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی بنا رہے ہیں اور ہم مشکل سے صرف استعمال کر پا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ میں نے تین سال کام کیا۔
اس دوران کہوٹا ریسرچ لیبارٹریز کو سائنٹیفک مواد ڈھونڈنے کے لیے بہت دشواریاں پیش آتی تھیں۔ میں غلام اسحاق خان یونیورسٹی کو ریسرچ لٹریچر مہیا کرتا تھا۔ مجھے وہاں سے پیشکش آئی تو میں نے یو ایس ائی ایس سے استیفیٰ دے دیا۔اس طرح سے میں نے ڈالر چھوڑ کے روپے میں کمانا شروع کر دیا۔ غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے کا بہت ہی مزہ آیا۔ بہت سارے ممالک کے جو ٹیسٹ ہوتے تھے وہ بھی غلام اسحاق یونیورسٹی کے لیب میں ہوتے تھے ۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اس وقت میں غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ میں تھا اور مجھے ان کا علم تھا۔
میں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کہ غلام اسحاق خان یونیورسٹی میں کام کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ جب آپ بہتر اور قابل لوگوں کی ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہیں تو آپ کے اپنے ذہن کی وسعت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ہمیں جو بھی دشواریاں نظر آئیں ہم۔ جن دشواریوں کا ہم نے سامنا کرنا تھااور اپنے ملک کے لیے کچھ بہتر کرنا تھا۔ میں نے پڑھا کہ جتنے بھی ترقی یافتہ قومیں رہی ہیں ان میں ایک چیز مشترک تھی کہ انہوں نے اپنا آغاز محنت سے شروع کیا۔ ترقی کی دوسری شرط یہ ہے کہ محنت کے بعد آپ کے اندر خلوص نیت ہو۔ ان دونوں چیزوں کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد LUMSمیں میں بطور ڈائریکٹر لائبریری آگیا۔ یہاں پر میں نے بہت سارے کام کیے ۔ بہت سارے لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ نیشنل ریسرچ لائبریری کیسے بنائی جاتی ہے۔ یہ کام میں نے 2003ء میں شروع کیا اس وقت عطا الرحمن صاحب تھے وزیر سائنس اینڈ ریسرچ ۔ ہم نے یہ کوشش کرنی تھی کہ انجینئرنگ کا، شعبہ قانون کا اپنا ایک ڈیٹا بیس بنانا تھا جو کہ کچھ سالوں کے اندر پھر وہ انٹیگریٹ بھی ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ میں نے مزید کافی ساری لائبریریز بھی بنائی ہیں۔
جب مجھے موقع ملا تو میں نے کنسلٹنٹ دینا شروع کی۔ گیریژن پبلک لائبریری ملتان میں ،میں نے بہت کام کیا۔ گیریژن پبلک لائبریری ملتان دیکھنے کے لائق ہے۔ آپ کو وہاں ضرور جانا چاہیے۔ تقریباً میں 39 سے زیادہ لائبریریز کے ماڈل بنا چکا ہوں۔
جب یہاں سے میرا کنٹریکٹ مکمل ہوا تو میں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور چلا گیا۔ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں میں بہت کم عرصہ رہا لیکن وہاں پہ میں نے ان کا کیو ای سیQEC سسٹم بنایا۔ اس کے بعد میں آئی ٹی یو میں چلا گیا اور وہاں پہ کچھ عرصہ گزارا۔ میں نے یونیورسٹی میں کام کرنے کے دوران یہ سیکھا کہ یونیورسٹی کا جو مرکزی کردار ہے وہ فیکلٹی ہے۔ آپ نے اگر یونیورسٹی میں کامیاب ہونا ہے تو فیکلٹی کے لیے آپ نے سہولت پیدا کرنی ہے اور قابل لوگ رکھنے ہیں۔ مثال کے طور پہ اگر ایک شخص تحقیق کرنے والا ہے آپ اس کو چھوٹی چھوٹی فائلوں میں الجھا کے رکھیں گے چھوٹے چھوٹے مسائل میں اس کو ڈال دیں گے تو وہ انہی میں پڑا رہے گا تحقیق نہیں کر پائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے سہولیات دیں۔
اس کے بعد میں ڈی جی پنجاب بن گیا۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔