کوئٹہ سے کامیابی تک سفر
(جناب سہیل عزیز کے ساتھ ایک نشست)
آج کی گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کو امید کا پیغام دینا۔خاص طور پر ان نوجوانوں کو امید دلانا جو اپنے ملک سے مایوس ہو کر دوسرے ملکوں کے ویزے کے لیے اپلائی کر رہے ہیں ۔کینیڈا ،امریکہ اور دوسرے ممالک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں خود ایک فارن سٹیزن شپ لے کر لاہور میں بیٹھا ہوں۔
![]() |
ڈاکٹر علی ساجد |
اس سے مزید واضح مثال میں نہیں دے سکتا۔ مجھے یہاں پر کچھ نظر آرہا ہے تو میں یہاں پہ بیٹھا ہوں اب کینیڈا کی سٹیزن شپ چھوڑ کر میں یہاں پہ بیٹھا ہوں۔ یہاں پر میرے معاملات ہیں۔ یہاں پہ مجھے وہ سب کچھ مل رہا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ کینیڈا میں نہیں ہے۔ میں اپنی پرسکون زندگی چھوڑ کر لاہور میں جدو جہد کر رہا ہوں ۔ آخر کچھ تو خوبصورتی مجھے اس ملک میں نظر آئی جس کی وجہ سے اس ملک میں ہوں۔ میرے خیال میں کسی بھی شخص یا چند افراد کے غلط ہونے کی وجہ سے یا ان کی خرابی کی وجہ سے ملک چھوڑنا بالکل مناسب نہیں ہے۔ اس پس منظر کے بعد میں عاجزانہ گزارش کروں گا، جناب سہیل عزیز صاحب سے کہ وہ اس کے حوالے سے روشنی ڈالیں ۔
میری جناب سہیل عزیز صاحب سے گزارش ہے کہ ہمیں بتائیں کہ کہاں سے انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز کیا؟ ان کے حالات کا پس منظر کیا تھا؟اور آج اس مقام تک کیسے پہنچے؟ اس کے حوالے سے ذرا تفصیل کے ساتھ آپ بتائیے گا۔
سہیل عزیز صاحب: ڈاکٹر علی ساجد صاحب سب سے پہلے آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے موقع دیا گفتگو کرنے کا۔ میں آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ میرے پاس چل کر آئے اور میرے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ میرا تعلق بنیادی طور پہ کوئٹہ بلوچستان سے ہے۔ بلوچ تہذیب سے میرا گہرا تعلق ہے۔ 1979 ءمیں میرا نیشنل کالج اف ارٹس(NCA) میں داخلہ ہوا۔ میرا داخلہ کوٹا پر ہوا تھا اور ہمیں معلوم بھی نہیں تھا کہ (NCA) کیا ہے؟ ہمارے پاس زیادہ مواقع نہیں ہوا کرتے تھے۔ ڈگری کالج بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔ صرف ایک میڈیکل کالج تھا۔ اور میں نے کبھی بھی ڈاکٹر بننے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ پڑھائی بھی ہماری واجبی سی تھی۔ اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ این سی اے (NCA) لاہور میں داخلے چل رہے ہیں۔ ہم نے بھی وہاں پر داخلے کے لیے درخواست بھیج دی اور ہمارا داخلہ ہو گیا۔ اول میں آیا تھا آرکیٹیکچر میں پڑھنے کے لیے لیکن ریاضی کمزور ہونے کی وجہ سےپہلے سال میں ٹیسٹ پاس نہیں کر پایا ۔ پھر میں ڈیزائن میں چلا گیا۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہو گیا کہ میں پیدا ہی ڈیزائن کے لیے ہوا تھا یہ میرے لیے صحیح رہے گا۔
ڈاکٹر علی ساجد: یہ ڈیزائن کیا چیز ہے یہ کیا شعبہ ہے؟
سہیل عزیز: بنیادی طور پہ ڈیزائن میں تین چار شعبے ہیں۔ ایک کمرشل ڈیزائن ہے جس سے ہم اردو میں ایڈورٹائزمنٹ کہتے ہیں تشہیر۔ ایک سرامک ہے۔ ایک ٹیکسٹائل ہے۔ اور ایک میں پروڈکٹ اینالیسز ہے۔ ہمارا پہلا سال فنڈامینٹل ہوتا ہے اور ہمیں یہ چاروں ڈیزائن پڑھنے پڑتےتھے۔ اس کے بعد آگے جا کے سپیشلائزیشن میں بندہ سیکنڈ ایئر میں چلا جاتا تھا۔ میں نے اپنے لیے یہ انتخاب کیا کہ میں ایڈورٹائزنگ میں جاؤں گا۔ اس زمانے میں اسے ڈیزائن کہتے تھے آج کے زمانے میں اسے ایک کمیونیکیشن ڈیزائن کہتے ہیں۔ وہاں سے میں نے 1983ء میں کوالیفائی کیا۔ اس کے بعد میں دوبارہ کوئٹہ چلا گیا۔ میرا تعلق ایک لور مڈل کلاس سے تھا۔ اس لیے مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں کوئی بہت بڑا آدمی ہوں ۔ میرا کوئی خاص معاشی پس منظر نہیں تھا۔ میرے پاس انتخاب نہیں تھا اس لیے میں بولان ٹیکسٹائل میں بھرتی ہو گیا۔ مل میں کام کرنے لگا پیسوں کے لیے۔ گھر میں حالات بہت تنگ تھے۔ والد صاحب وفات پا چکے تھے۔ اس لیے پیسوں کی خاطر مجھے یہ کام جاری رکھنا پڑا۔ میں نے بطور ڈیزائنر ڈیڑھ سال بولان ٹیکسٹائل مل میں کام کیا ۔ میں تقریبا 1984 ءمیں دوبارہ لاہور آگیا ۔ میری یہاں پر اپوائنٹمنٹ ہو گئی نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں۔میری یہاں پر بطور اسسٹنٹ کلیکٹر نامزدگی ہو گئی۔ میرے لیے کافی آسان ہو گیا میری معاشی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی اور اچھے دن شروع ہو گئے۔ اس دوران والدہ میری کوئٹہ میں تھی اس کو بھی میں نے لاہور بلوا لیا۔ زندگی کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
میرا خیال ہے کہ زندگی ایک کھیل ہے جس میں کبھی آپ کے گھٹنوں کو چوٹ پڑتی ہے ،کبھی آپ کی ٹانگوں کو چوٹ پڑتی ہے اور کبھی آپ کا سر پھٹ جاتا ہے۔ آخر جیت اسی کی ہوتی ہے جو ان تمام تکالیف سے گزرتے گزرتے کھیل کے آخر تک موجود رہتا ہے۔ اس وقت خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے ہم تین لوگ تھے۔ گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈاؤن سائزنگ ہوئی تو ہم تین افراد کو نکال دیا گیا۔ ہم دوبارہ سڑک پر آگئے تھے۔ اب کیونکہ گھر والے بھی لاہور میں تھے ۔ ہم زیرو سے بھی نیچے چلے گئےتھے۔ دباؤ بڑھ گیاتھا۔ معاشی حالات برے ہو گئے تھے۔ ایسی صورتحال کے بعد پھر میں نے نئے مواقع ڈھونڈنا شروع کیے۔ سڑکوں کو ناپنا شروع کر دیا۔ بعض اوقات کہتے ہیں نا کہ قدرت آپ کو سیدھے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ جب آپ کے پاس مواقع کم ہوں تو پھر قدرتی آپ کا ہاتھ پکڑتی ہے ۔اور وہی آپ کی طاقت بن جاتی ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ وسائل کی کمی کی وجو ہات آپ کے وسائل بن جاتے ہیں۔ اس کے دوران پھر میں نے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے آغاز کیا۔ وہاں تقریباً ڈیڑھ سال کام کیا۔ تقریبا ڈیڑھ سال کے بعد میری تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ ایک صاحب تھے انہوں نے فروزن بیف /میٹ کو بیچنے کا کام مجھے دیا۔ تقریبا ڈیڑھ سے دو سال تک میں دروازے سے اگلے دروازے تک یہی کام کرتا رہا. لیکن زندگی کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ چلتا رہا۔ اللہ کی طرف سے یہ خاص عنایت ہے کہ میں عام طور پر گھبراتا نہیں ہوں اگر گھبراؤں تو اللہ پر امید نہیں چھوڑتا ۔ اس میں کچھ مسائل تھے۔ ان صاحب نے بھی دکان بند کر دی اور میں پھر دوبارہ سڑکوں پر آگیا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا میں نے سوچا کہ ایک نوکری چلی گئی پھر دوسری نوکری چلی گئی۔ اب اس بہتر ہے کہ کچھ اپنا کام کیا جائے۔ اس دوران میں نے ارادہ کیا کہ میں کوشش کروں گا کہ نوکری نہ کروں۔ میرے پاس کوئی 1500 روپے بچے ہوئے تھے۔ میں مین مارکیٹ گلبرگ میں گیا ایک کباڑیے کے پاس۔ ایک کباڑیے کے پاس سے میں نے پرانے زمانے کا رائٹنگ ڈیسک دیکھا۔ جس میں ٹائپ رائٹر آ جاتا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ تقریباً 500 روپے کا میں نے وہ خریدا ۔ اور پھر میں نے ایک دوست سے گزارش کی کہ وہ مجھے اپنے دفتر میں جگہ دے۔میں اس حصے کے پیسے دوں گا۔ اس دوست نے کہا کہ آپ کوپیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہاں پربیٹھ سکتے ہو ۔اس نے میری مدد کی۔ وہاں پھر سے میں نے آغاز کیا اور ایک سلسلہ چل پڑا۔
ڈاکٹر علی ساجد:آپ نے وہاں سے کس کام کا آغاز کیا؟
سہیل عزیز: وہاں سے میں نے کچھ سروسز دینے کا آغاز کیا۔ میرے پاس بائیک ہوتی تھی پرانے زمانے کی۔ میں دفتروں میں جاتا تھا اور ان سے کہتا تھا کہ آپ کو کوئی پرنٹنگ کا کام کروانا ہے تو آپ میری خدمات حاصل کر سکتے ہو۔ کسی نے کارڈ بنوانا ہوتا تھا۔ کسی نے رسیدیں پرنٹ کروانی ہوتی تھیں۔ کسی نے بل پرنٹ کروانے ہوتے تھے تو اس طرح کا کام تھا۔ اس طرح سے روزی روٹی کا سلسلہ چل نکلا۔
ایک چیز جو اس دوران میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ کا مجھ پر خاص کرم رہا میں اپنے کام میں مستقل مزاج رہا۔ میں مسلسل اپنے کام میں جدوجہد کرتا رہتا تھا۔ اللہ بھی آپ کو اس وقت سمجھ آنا شروع ہوتا ہے جب ارد گرد آپ کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ آہستہ آہستہ محنت کرتے رہنے سے زندگی پھر راستے پر آنا شروع ہو گئی۔ اس پرنٹنگ کے کام کو اگے بڑھاتے بڑھاتے تقریباً 2000ء کے قریب میں نے پرنٹنگ ایجنسی کا کام بڑھا دیا۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنانے کے لیے آپ کے پاس جتنی بھی اتھارٹیز ہوتی ہیں، ان سے آپ کو این او سی چاہیے ہوتا ہے۔ اور آپ کو بہت ساری کاروائیاں مکمل کرنی پڑتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ سلیقے سے کاروبار کرنے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔میرا یہ خیال ہے کہ سلیقے سے کام کرنے کے لیے پیسے نہیں چاہیے ہوتےہیں۔ بندے کے اندر سلیقے سے کام کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس کو بروئے کار نہیں لاتا۔ میں اس چیز پہ یقین رکھتا ہوں کہ کاروبار کرنے کے لیے پیسے بعد میں آتے ہیں اس سے پہلے انسان کے ذہن میں بڑی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے کام کو تھوڑا سا سلیقے کے ساتھ کرنا شروع کر دیں تو وہ ایک دن بہت بڑا کام بن جائے گا۔
ڈاکٹر علی ساجد:اچھا مجھے یہ لگتا ہے کہ آپ نے بڑی سوچ کے ذریعے چیزوں میں جمالیاتی ذوق پیدا کیا اور جو ابھی نظر بھی آ رہا ہے کیا ایسا ہی ہے؟
سہیل عزیز: جی بالکل اگر آپ کھانے کو سلیقے کے ساتھ کھانا شروع کر دیں۔ برتنوں کو طریقے سے رکھنا شروع کر دیں تو ایک کمال نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: آپ کی گفتگو سے میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے جنوبی ایشیا کے لوگوں میں پیسے کی زیادتی کے باوجود ترتیب سلیقہ اور جمالیات سے محروم ہیں کیا یہ درست ہے؟
سہیل عزیز: میں عرض کروں پیسوں کے حوالے سے ہمارے ہاں دو قسم کے رد عمل پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز خریدنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تاثر ہے جس کے پاس پیسہ ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ اس پیسے کی وجہ سے اس کی بات سنی جانی چاہیے۔ پیسے کی بنیاد پر اسے باقی لوگوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہو ۔ اور میرے خیال میں یہ بہت ہی مناسب سوچ ہے۔ اور دوسرے وہ قسم کے لوگ ہیں جن کے پاس پیسے زیادہ نہیں ہیں۔ ان کے پاس وسائل کم ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے ۔وہ یہ سوچتے ہیں کہ جب پیسہ آئے گا تو پھر وہ یہ کام کریں گے ۔جب پیسہ آئے گا تو وہ فلاں کام کریں گے۔جب پیسہ آئے گا تو کچھ کریں گے نہیں تو نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں قسم کے جو فکر ہے وہ بالکل مناسب نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو موجودہ وسائل ہیں وہی حقیقت آپ نے اسی کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے اور وہیں سے کوئی پیداوار آئے گی۔ آپ کے حال کے دائرے میں موجود چیزوں کو جوڑ کے آپ کوئی تصویر بنا سکتے ہی۔ں نہ تو ماضی سے کچھ اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی مستقبل سے کوئی اینٹ اٹھا کے کوئی چیز بنا سکتےہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں جو فکر ہیں وہ مناسب نہیں ہیں۔ انسان کے اندر جو ایک حقیقت پسندی ہوتی ہے اس کو غیر متوازی نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر علی ساجد: آپ کا خیال ہے کہ تخیل انسان کے وسائل کا محتاج نہیں ہے؟
سہیل عزیز: جی میرا خیال ہے کہ تخیل آپ کے وسائل کی کمی کا محتاج نہیں ہے اور زیادتی کا بھی۔
ڈاکٹر علی ساجد:میں بہت سارے ممالک کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں جا چکا ہوں۔ وہاں میں نے ایک چیز محسوس کی کہ چھوٹے ادارے اور بڑے تعلیمی ادارے میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے ۔بڑے تعلیمی ادارے کے جو بھی سربراہ ہیں ان کی بڑی سوچ اس ادارے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ اور ہمارے ہاں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی 1884ء کو بنی۔ مجھے نہیں لگتا وہاں پہ کوئی بڑی سوچ کا سربراہ وہاں پرآیا ہے۔ جو اس ادارہ کو بن الاقوامی درجے کا ادارہ بنا دے۔
میرے خیال میں ہمارے پاس کام نہ کرنے کی وجوہات زیادہ ہیں بنسبت کام نہ کرنے کے۔ہمارا دھیان تالا توڑنے کی طرف زیادہ جاتا ہے بجائے یہ کہ ہم نیا تالا خریدیں۔ ہم لوگ نا امیدی کا شکار ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نا امیدی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے۔ ہر مسئلے کے اندر اس کا حل موجود ہوتا ہے لیکن ہم اس کو تلاش نہیں کرتے۔ میرے خیال میں جو مشکلات ہوتی ہیں وہ قدرت کی طرف سے ہوتی ہیں۔ آپ کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے۔ جب آپ نے مشکلات میں بے بسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا تو قدرت آپ کو اگلے دائرے میں نہیں لے جاتی۔ انسان کا ایک درجے سے دوسرے درجے میں جانے کا جو مرحلہ ہے وہ مشکلات سے گزرنا ہے۔ میرے خیال میں مثبت سوچنے کے علاوہ زندگی گزارنے کا اور کوئی بھی صحیح طریقہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: میں نے دنیا گھومنے کے بعد جتنے بھی کامیاب لوگ دیکھے ان سب میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی مثبت سوچ۔ اور جس کے اندر یہ مثبت سوچ والا پہلو نہیں تھا وہ ایک دم گر گیا۔ میرے نزدیک منفی سوچ تکبر اور انا کی پہلی سیڑھی ہے اور زوال کی بہت بڑی وجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اوپر جب مشکلات آئیں آپ اس کو موقع سمجھ کے تسلیم کریں اور اس میں سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈیں اور یہ چیز ہم اپنی ذاتی زندگی سے بھی دیکھتے ہیں۔
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ آپ سے مل کر ہمارے اندر اتنی انرجی آ جاتی ہے کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔ اور اس کا اثر بڑی دیر تک رہتا ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: بہت سارے نوجوانوں کا یہ کہنا ہے کہ پرانے دور میں مواقع زیادہ تھے آبادی کم تھی ۔لیکن ہمارے دور میں مواقع کم ہیں۔آبادی زیادہ ہے اس لیے ہمیں ملک سے باہر جانا چاہیے۔ نوجوان مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے ؟
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب میرے خیال میں جو مثبت سوچ ہے یہ ایک جادوئی چیز ہے۔ اس میں جادو ہے۔ اور یہ کوئی افسانوی چیز نہیں ہے بالکل عملی چیز ہے۔ دیکھنے کا اورسوچنے کا نقطہ نظر ہوتا ہے۔ ایک شخص کو گلاس آدھا نظر آتا ہے اور ایک شخص کو آدھا بھرا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت ایک ہی ہے۔ اگر کوئی انسان اپنی سوچ کی ترتیب ٹھیک کر لے تو اس کے معاملات درست ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ راحت کے دائرے میں کسی بھی انسان کو نئے خیالات نہیں آتے۔ اس کی خاطر مشکلات میں آنا پڑتا ہے۔ آسائش کے دائرے میں رہنے والے لوگوں کا اکثر یہ مسئلہ ہے کہ جب مصیبت آتی ہے تو وہ حرکت کرتے ہیں جب بارش اتی ہے تو وہ چھتری ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ نوجوانوں کا یہ کہنا ہے کہ مواقع کم ہو چکے ہیں۔ یہ کسی حد تک درست ہے لیکن مکمل طور پر درست نہیں۔ بعض اوقات مجھے یہ بالکل بے جا بھی نہیں لگتا۔ اور ان کی سوچ کا یہ جو دائرہ بنتا جا رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ حالات اتنے پیچیدہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ اب میرے خیال میں آپ جیسے اور ہم جیسے لوگوں کا کام ہے کہ ہم بچوں کو بتائیں کہ اس راستے سے بھی آپ چل کے کامیاب ہو سکتے ہیں ان کو وہ راستے دکھائیں جن پہ ہم چل کر پہنچے۔ ہمیں ان کو یقین دلانا ہے کہ سب کچھ ختم نہیں ہوا اس کے علاوہ بھی بہت سارے راستے ہیں ان راستوں کوپر نظر رکھنی چاہیے۔
اگر دوسرے طریقے سے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ہر دس میں سے نو لوگ یا تو مایوس ہیں یا وہ کام نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے اندر وہ یقین والی کیفیت ختم ہو چکی ہے۔ اب اس انداز سے دیکھیں کہ نو لوگ جو مایوس ہو چکے ہیں ان کے بعد جو ایک بندہ ہےاس کے لیے میدان خالی ہے۔ 10 میں سے ایک شخص جو کرنے کی خواہش رکھتا ہے وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اب جس شخص کو یہ چیز سمجھ آگئی کہ اب اس کے پاس بہت مواقع ہیں اس کو مواقع نظر بھی آ رہے ہیں پاکستان میں تو وہ بہت کچھ حاصل کر جاتا ہے۔ اب سیدھی سی بات ہے 10 میں سے نو لوگ سوئے ہیں اور ایک شخص جاگ رہا ہے اور جاگنے والا موقع لے جاتا ہے ۔اب میرا خیال یہ ہے کہ باقی لوگوں کو بھی جاگ جانا چاہیے۔ بجائے یہ کہ کسی دوسرے ملک میں جانے کی کوشش کریں ۔ادھر ہی مواقع ڈھونڈ لیں۔ مواقع ہر جگہ ہوتے ہیں بس انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ مواقع ڈھونڈنے کے حوالے سے ایک بہترین مثال ہے کہ ایک شخص نے کسی کو کہا کہ تم نے آج شہر کی ٹریفک کو دیکھنا ہے اور اس میں جتنے بھی پیلی گاڑیاں ہیں ان کو گننا ہے۔ وہ شخص جب واپس آیا تو اس کے مالک نے اس سے پوچھا کہ تم نے کتنی پیلی گاڑیاں دیکھی ہیں؟ اس نے کہاکہ ایک ہزار ۔مالک نے اگلا سوال کیا کہ کل کتنی گاڑیاں تھیں۔ اس نے کہا یہ تو میں نے نہیں سوچا۔تو یہ نقطہ نظر ہے آپ نے صرف پیلی گاڑیاں دیکھنے کی کوشش کی آپ کو صرف وہی کچھ نظر آیا اور یہی مواقع کی تلاش کی مثال ہے۔ مواقع ڈھونڈیں گے تو آپ کو مواقع نظر آ ہی جائیں گے۔ اور جتنا تلاش کریں گے صرف اتنا ہی ملے گا۔ ہمیشہ بندے کو وہ نظر آتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو مواقع ڈھونڈتے ہیں اور ایک وہ جن کو مسائل ہی نظر آتے ہیں۔
سہیل عزیز: بالکل ڈاکٹر صاحب آپ نے صحیح فرمایا کہ مصیبتوں میں مشکل حالات میں ایسے بھی لوگ ہیں جو عرب پتی بن گئے۔ کیونکہ مصیبتوں میں انہوں نے مواقع ڈھونڈے۔ اب کرونا کے اور دیگر حالات اپ کے سامنے ہیں ایسے موقع پہ جب سارے مصیبت کا شکار تھے بہت سارے لوگوں نے ان کو مواقع کے طور پر لیا اور اب عرب پتی ہیں۔ اب اسی مصیبت کے دور میں کسی نے ماسک بنا کے کمایا اور کسی نے ویکسین بنا کے بہت کمایا۔ اور کسی نے ہینڈ سینی ٹائزر بنایا۔ اب یہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح مصیبت پہ روتے رہتے تو یہ کبھی مواقع نہ ڈھونڈ پاتے۔
ڈاکٹر علی ساجد: میں نے آپ کو کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔آپ نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے کوشش کرتے رہے اور آخر کار کامیاب ہوئے۔ میرا یہ سوال ہے کہ یہ اللہ پر توکل کیا ہوتا ہے ؟
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب آپ نے اللہ پر توکل کے حوالے سے بات کی تو میں اس کے بارے میں کہنا چاہوں گا. میں نے زندگی کے تجربے سے دیکھا ۔ہم نے بار بار قران میں پڑھا کہ اللہ پر توکل کرنا اللہ پر بھروسہ کرنا، اللہ بہت کریم ہے، لیکن ان کو پڑھنا اور ان کو محسوس کرنا بہت مختلف ہے۔
میں نہ تو مذہبی آدمی ہوں اور نہ ہی بہت زیادہ نیک ہوں۔ عام دنیا دار آدمی ہوں۔ لیکن اللہ پر توکل کے حوالے سے جو میں نے محسوس کیا ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ زندگی کے مشکل وقت میں اللہ تعالی نے مجھے توکل کی نعمت سے سرفراز رکھا۔ ایسے بہت سارے مقام آئے جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے دائیں بائیں آگے پیچھے کچھ بھی نہیں نظر آ رہا تو اس وقت قدرت کی طرف سے یہ اشارہ ملا کہ آپ اسی طرح سے چلتے رہو آپ کو منزل مل جائے گی ۔میں سمجھتا ہوں یہی توکل ہے۔ میرا زندگی میں یہ تجربہ رہا ہے کہ آپ ایک قدم اللہ پر بھروسہ کر کے آگے چلتے ہو تو قدرت آپ کو ہزار قدم آگے لے جاتی ہے۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ توکل کی نعمت آپ کو اس وقت ملتی ہے جب آپ ایک مستقل مزاجی کے عادی ہوں اور آپ کو امید ہو بہتری کی یہ دو چیزیں بہت لازم ہیں۔ میں نے زندگی میں یہ دیکھا کہ میں چلتا رہا ۔چلتے چلتے آخر کسی منزل پر پہنچ گئے۔ نوجوانوں میں جو چیز میں خطرناک چیز محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ شارٹ کٹ۔ اب ہر شخص بالخصوص نوجوان شارٹ کٹ کے تلاش میں ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی کام جلد از جلد ہو جائے اور وہ کسی منزل پر پہنچ جائیں ۔ یہ بہت خطرناک بات ہے ۔ میرے خیال میں حقیقت میں کوئی بھی شارٹ کٹ نام کی چیز نہیں ہوتی کامیابی اپنے راستے سے آتی ہے اور طویل راستے سے آتی ہے۔
مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے راستے کہیں ختم نہیں ہوتے اب جہاں پر بھی جائیں گے مواقع آپ نے ڈھونڈنے ہیں تو ہمارے ملک میں بہت زیادہ مواقع ہیں کیونکہ کام کرنے والے لوگ ہیں ہی آپ کام کرنے والے بن جائیں مواقع آپ کے سامنے ہیں ۔اب ہم جب مواقع ڈھونڈ کر یہاں پہنچے ہیں تو میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے کوئی بھی ریڑی لگا دیں وہ چل جائے گی۔
ڈاکٹر علی ساجد: میں لاہور میں تقریبا 50 سال سے ہوں اور میرا خیال ہے اج 40 سال سے زیادہ سے اپ بھی موجود ہیں لاہور میں میں نے لاہور کے بہت سارے فیس دیکھے میں نے لاہور میں بہت سارا اتار چڑھاؤ دیکھا بجلی کے مسائل دیکھیں پانی کے مسائل دیکھے ٹریفک کے مسائل دیکھے تعلیم کے مسائل دیکھیں۔ میرا اپ سے سوال یہ ہے کہ اپ تقریبا 40 سال سے لاہور میں ہیں اپ کے نزدیک ا اپ لاہور کیسا شہر ہے اس کے کیا مسائل ہیں اور اپ کے نزدیک وہ کون سے بنیادی مسائل ہیں جو اگلی نسل کو زیادہ فیس کرنے پڑیں گے۔
سہیل عزیز:ڈاکٹر صاحب میری رائے میں میں نے بد قسمتی سے پچھلےتیس ، چالیس سالوں میں لاہور کو تنزلی کی طرف پایا ۔مجھے یاد ہے ۔جب ہم 1979ء میں لاہور آئے تھے اس وقت کوئی بھی فضائی آلودگی نہیں تھی۔ صاف ستھری ہوا تھی سموگ(Smog) کا تصور بھی نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی بھی ادارہ سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طرف نہیں جا پایا۔ ادارے کاغذوں میں موجود ہیں لیکن عملی طور پہ کوئی بھی ادارہ کام نہیں کر رہا جس کی کوئی افادیت ہمیں نظر آئے۔ رسموں کی حد تک اداروں کی کاغذی کاروائی موجود ہے لیکن عملی طور پہ کوئی بھی نتائج نہیں ہے۔ آپ مشاہدہ کر لیں جو بھی مسائل چل رہے ہیں بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کافی سال پہلے جو ٹریفک کی حالت تھی آج اس سے بدتر ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: کیا آپ کے خیال میں ڈی آئی جی ٹریفک پولیس نے اس طرف سوچا ہے؟ کیا معاملات کے بارے میں کوئی جائزہ لیا ہوگا؟ یا صرف فیتے ہی کاٹے جا رہے ہیں ؟
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب صرف ہمارا ماحول ہی خراب نہیں ہے۔ ہمارے ادارے بھی آلودہ ہو چکے ہیں۔ میں صرف اداروں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہ رہا۔ ہم انفرادی لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے اور ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انفرادی طور پر تبھی عمل درآمد ہوگا جب کوئی ادارہ جس کی ذمہ داری ہے وہ ان قوانین کو لاگوکروائے گا۔ شفافیت اور احتساب یہ دونوں انصاف کے معیار کی بنیادی چیزیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے دونوں ہی ناپید نظر آتے ہیں۔ یہ بھی ایک نسخہ ہے کہ ہمیں بچپن سے کہا گیا کہ علم بڑی دولت ہے۔ اس لیے ہم دولت بنانے کے لیے علم کو استعمال کر رہے ہیں۔ اگر بچپن سے کہا جاتا کہ علم بڑی روشنی ہے تو آج پھر ہم شاید روشنی پھیلا رہے ہوتے۔ آج علم پھیل چکا ہے۔ ہر شخص اب علم کی طرف راغب ہے ۔پڑھا لکھا معاشرہ ہے۔ اب توترقی ہو جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس حالت کا تعلیم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ہماری اور ہمارے معاشرے کی تعلیم بہتر تو ہو گئی لیکن تربیت نہیں ہو سکی ۔ ہمارے ہاں یہ شدید مسئلہ ہے کہ دولت نے اخلاقیات کے اوپر قبضہ کر لیا ہے۔ آئندہ جو لاہور کے مسائل ہیں وہ اتنے شدید اور خطرناک ہیں کہ ہم اس طرف توجہ ہی نہیں کر رہے جو اگلی ہماری نسل اس کا سامنا کرے گی۔ لاہور کے قریب بہنے والا راوی دریا خشک ہو چکا ہے اور پانی کے زیر زمین ذخائر جو 1947ء میں تقریبا 40 فٹ پہ موجود تھے اب تقریبا 800 فٹ سے بھی گہرے چلے گئے۔
ڈاکٹر علی ساجد: آپ کے نزدیک کون سے مسائل ہیں جن کو ایمرجنسی طور پہ دیکھا جانا چاہیے؟
سہیل عزیز: پہلے نمبر پہ پانی کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھا جانا چاہیے ۔دوسرے نمبر پہ ٹریفک کے مسائل کو فوری طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ تیسرے نمبر پہ ماحول کی آلودگی کو فوری طور پہ دیکھا جانا چاہیے۔ ان مسائل کا حل ہم نے جلدی نہ نکالا تو ہماری اگلی نسل کو شدید مسائل کا سامنا ہوگا جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ یہ ماحول کی آلودگی کی وجہ ہے کہ ہماری ایک وبائی بیماری ختم نہیں ہوتی دوسری شروع ہو جاتی ہے۔وبائی امراض کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔ ابھی آنکھوں کے مسائل شروع ہو چکے ہیں اور پورے شہر میں اور دیگر علاقوں میں پھیل چکے ہیں۔ انسان نے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے۔ اب قدرتی ماحول کی طرف سے اس کا رد عمل آنا شروع ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم بہت ہو چکی ہے۔ اب معاشرے میں جزا و سزا کا عمل نافذ ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں کوئی توازن پیدا ہو۔
میں عرض کروں کہ پاکستان کو بنے ہوئے تقریبا 75 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس میں جابر حکمران بھی رہے ہیں۔ اس میں صابر حکمران بھی رہے ہیں اور آرمی کی حکومت بھی رہی ہے ۔لیکن یہ سارے رکشے کی آواز کو بند نہیں کروا سکے۔ اس عمل میں حالانکہ امریکہ کی سازش بھی نہیں ہے دباؤ بھی نہیں ہے۔ آپ پورے پاکستان میں ایک کلو خالص دودھ اگر لے آئیں تو آپ خوش قسمت انسان ہونگے۔
ہر شخص جو یہ غلط کام کر رہا ہے اس کو اندازہ ہے کہ وہ غلط کام کر رہا ہے۔ دودھ میں پانی ملا رہا ہے۔ چیزوں میں ملاوٹ کر کے بیچ رہا ہے ۔یہ انفرادی درجے کا کام نہیں ہے۔ اب یہ حکومتی سطح کا کام ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ یہ قانون لاگو کروائے۔
ڈاکٹر علی ساجد: کون سی ملکی ایجنسی ہوتی ہے جو ماحول کی ترقی کا باعث بنتی ہے؟ یا اس کی ذمہ دار ہے۔ کیا ساری ایجنسیاں اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں؟
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب میں آپ کے سوال کا جواب اس طرح دینا چاہوں گا کہ جن جن ایجنسیوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا ہے وہی ایجنسیاں ذمہ دار ہیں کہ اب وہ اس کو بہتر کریں۔ ماحولیاتی الودگی کے حوالے سے اس وقت لاہور دنیا کا آٹھواں یا ساتواں بدترین شہر بن چکا ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: خلیفہ عبدالحکیم نے 1910ء کے قریب ایک کتاب لکھی "لاہور" کے نام سے ہم میٹرک میں ٹیکسٹ بک کے طور پہ وہ پڑھتے تھے۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ لاہور باغوں کا شہر ہے۔ کوئی بھی بیمار یہاں پر آتا ہے اور صحت مند ہو جاتا ہے۔ آب موجودہ دور میں صورتحال یہ ہے۔ میں ایک تحقیق پڑھ رہا تھا کہ لاہور میں رہنے والوں کی جو اوسط عمر ہے وہ چار سال کم ہو چکی ہے۔ اس تحقیق کا ماخذ مجھے نہیں پتہ لیکن یہ تحقیق گردش کر رہی ہے۔ اور شاید اس کی وجہ آلودگی ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ لاہور جیسا صاف ستھرا شہر اب آلودگی کی زد میں آ کر اتنا بدترین ہوتا جا رہا ہے تو باقی شہروں کے کیا حالت ہوگی۔
سہیل عزیز: کوئٹہ ہمارا صاف ستھرا شہر تھا ۔ میں آپ کو بری خبر دوں کہ اب کوئٹہ بھی آلودہ ہو چکا ہے۔ فضائی الودگی وہاں پہ زیادہ ہو چکی ہے۔ اب کوئٹہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ لوگ کوئٹہ میں صحت مند ہونے کے لیے آتے تھے لیکن اب ایسا نہیں۔ کوئٹہ شہر بہت گنجان ہو چکا ہے۔ آبادی کے تناسب سے تقریباً لاہور جیسا ہی گنجان ہے۔ پانی کا بہت مسئلہ ہے۔ کوئٹہ میں پانی نہیں ہے۔ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ٹریفک کا کوئی نظم و ضبط نہیں ہے ۔ شہر کے پھیلاؤ میں کوئی نظام نہیں ہے۔ شہری آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ ہو رہا ہے کراچی اور لاہور کی طرز پہ۔
ڈاکٹر علی ساجد: شہروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک حدیث بھی موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
" جب ایک شہر ایک خاص حد سے پھیل جائے اس کے پھیلاؤ کو روک دو اور نئے شہر آباد کرو۔"
ہمارے ہاں شہروں کے پھیلاؤ میں کوئی پالیسی نظر نہیں آتی۔ علامہ اقبالؒ جب اٹلی کے حکمران مسولینی سے ملے تھے۔ اس دوران مسولینی سے یہ حدیث ذکر کی تو وہ بڑے حیران ہوئے کہ آپ کے پیغمبر نے 1400ء سال پہلے ایسے مسائل کو کیسے سمجھ لیا؟ اور ان مسائل کا حل پیش کیا۔ ہمارے منصوبہ ساز لوگوں کو اور خود سے سمجھ نہیں آتی تو وہ اس حدیث کے تناظر میں نئے شہر آباد کر سکتے ہیں اور پرانے شہروں کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔
سہیل عزیز:ڈاکٹر صاحب تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یورپ میں اور بالخصوص جرمنی میں مجھے پتہ ہے کہ جب ایک شہر ایک حد سے بڑھنے لگتا ہے تو اس کے پھیلاؤ کو روک دیتے ہیں اور نئے شہر آباد کرتے ہیں۔ اب یہ چاہیے کہ اگلے 40 سالوں کا منصوبہ بنایا جائے۔ اور اس کے مطابق نئے شہر آباد کیے جائیں۔ ان نئے شہروں کا نظام بنایا جائے۔ ان شہروں مین سہولتیں مہیا کی جائیں۔ اب ایک ہی شہر میں ایک ہی جگہ پر ساری سہولتیں موجود ہونگی تو اس شہر کے اوپر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔
ڈاکٹر علی ساجد: ابھی ہم نے لاہور کے اوپر بات کی۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم تھوڑی سی گفتگو اپنے شعبے کے حوالے سے کرلیں۔ ہمارے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم اس شخص کے ساتھ بیٹھے ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز پیدل اور سائیکل سے کیا۔آج ان کے ماتحت 200 ءلوگ کام کر رہے ہیں۔ نامور ادارے کے طور پہ ان کا ادارہ سامنے آیا۔ میں نے بڑے بڑے اداروں میں آپ کی خدمات لینے کی جسارت کی ہے۔ اور آپ کے ادارے نے یہ ثابت کیا کہ یہ ادارہ ایک بہت ہی منظم ادارہ ہے اور اپ کی خدمات بہت ہی مفید ثابت ہوئیں ہمارے لیے۔
ڈاکٹر علی ساجد : اس وقت آپ کو آپ کے ایڈورٹائزمنٹ کمپنی میں کن مسائل کا سامنا ہے؟
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب ایک جو بہت بڑا مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ ٹیکنالوجی میں مسلسل اور تیزی کے ساتھ تبدیلی اور اضافہ اور ترقی ہے ۔ دوسرے نمبر پہ جو بہت بڑا مسئلہ ہے وہ وبائی امراض کا ہے۔ یہ سب مسائل اتنے تیزی سے آنا شروع ہو گئے ہیں کہ ہماری سوسائٹی اتنی جلدی ان کو حل کرنے کے قابل نہیں ہوئی۔ اور اسی دشواری کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ہماری ایڈورٹائزنگ فرم میں سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا اور اس سے ہمارا پرنٹنگ کا کام بہت متاثر ہوا۔ ہم نے دو چار سال پہلے یہ محسوس کر لیا تھا اور ہم پرنٹ میڈیا سے سوشل میڈیا پر جلد ہی آگے تھے جس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ اب ٹیکنالوجی کے بدلنے کے ساتھ اس کا کام کرنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ اس کی ضرورت بدل گئی ہے اس کا طرز بدل گیا ہے۔ پہلے میڈیا عمومی تھا سب کے لیے اخبارات تھے ۔اسی میں اشتہارات تھے ۔اسی میں خبریں تھیں سارے لوگ پڑھتے تھے ۔اب سوشل میڈیا نے مخصوص کر دیا ہے سب کچھ۔ اب آپ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہی آپ کے سامنے آ جاتی ہے اور یہ سوشل میڈیا کا کمال ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: میرا ایک مشاہدہ ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں عرض کروں۔ اس وقت جو پیمرا ادارے کے چیف ہیں وہ گورنمنٹ کالج میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان سے میں نے فون پر بات کرنے کی کوشش کی۔ میں ان سے کہا کہ میڈیا میں کچھ اخلاقیات اور اقدار پیدا کریں۔ میڈیا ہمارا یہ ثابت نہیں کر رہا کہ تعلیم سے اس کا کوئی واسطہ ہے۔ اخلاقیات سے اقتدار سے ان کا کوئی واسطہ نہیں لگتا ہے ۔ اب کوئی بھی کمپنی اپنی ایک پروڈکٹ بناتی ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے۔ ایسے جیسے اس کمپنی کی پروڈکٹ کے بغیر صحت خراب ہو جائے گی ۔اس کے بغیر زندگی مکمل ہی نہیں ہے۔ کیا ان کے لیے کوئی نظام یا کوئی سسٹم نہیں ہے؟ ان کو دیکھا جائے کہ ان کی کن غلط چیزوں کو روکا جائے؟
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب جیسے باقی اداروں میں زوال ہے اور ہر طرف آلودگی پھیل چکی ہے ہمارا میڈیا بھی اس سے نہیں بچا ہوا۔ ؎امریکہ جیسے ملکوں میں تو غلط خبر پھیلانے کے اوپر ادارے دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ ان اداروں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں غلط خبر پھیلانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر علی ساجد: ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے اوپر گورنمنٹ کے خلاف اگر کوئی بات کرتا ہے تو ایف ائی اے کا ادارہ متحرک ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی ایسا سسٹم بھی ہے کہ غلط تشہیر اور غلط چیزوں کی خبر پھیلانے کے اوپر بھی جانچ پڑتال ہو؟۔ اب جیسے تین دن میں رنگ گورا کرنے کی تشہیر ہو رہی ہے ۔ایسی چیزوں کی تشہیر قوم کو مزید اخلاقی طور پہ تنزلی کی طرف لے کے جا رہی ہے۔ کیا اپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
سہیل عزیز: پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ اس ویڈیو پر جادوگروں کے اشتہار چل رہے تھے۔ اور اس میں یہ اشتہار چل رہے تھے کہ چار دن میں محبوب آپ کے قدموں میں ہوگا۔ آپ یہ جادو ٹونہ کریں گے تو یہ ہو جائے گا یا وہ ہو جائے گا۔ ایسی چیزیں جب گھر میں چل رہی ہوں گی اور جب لوگ اس کو دیکھیں گے تو اس وجہ سے معاشرے کا تو بگاڑ پیدا ہوگا۔
ڈاکٹر علی ساجد: ہم کتاب لکھنے جا رہے ہیں”Legends of Lahore”۔آ پ کی پیدائش کوئٹہ کی ہے ۔لیکن 30 سال 40 سال لاہور میں رہنے کے دوران میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے صحیح آواز اٹھائی۔ مجھے فخر ہے کہ لاہور میں آپ جیسے لوگ اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں۔
آپ نے آج امید پر باتیں کی خدا پر بھروسے اور یقین کی باتیں کی۔ زندگی میں آنے والی دشواریوں کے بارے میں باتیں کی۔ نوجوانوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کی ۔ ان کو مواقع دکھانے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے میں ایک چھوٹا سا واقعہ سنانے کے بعد آپ سے اجازت چاہوں گا۔
میرا توکل پر جو یقین ہے وہ میں چاہوں گا کہ نوجوانوں تک پہنچے۔ 1993ء میں میں واشنگٹن ڈی سی میں تھا ۔ میرے پاس اگلے مہینے کا کرایہ نہیں تھا۔ سکالرشپ بھی ختم ہو چکی تھی۔ باقی وقت میں اللہ پر یقین کے ساتھ گزارتا رہا۔ حالت یہ تھی کہ اگلے مہینے کا کرایہ تو دور کی بات میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے۔ میں ایک سڑک پر جا رہا تھا۔ اسی دوران سامنے سے میرا ایک دوست آ رہا تھا۔ اس کا نام پٹیل تھا۔پٹیل انڈیا کے حیدراباد دکن میں رہتا تھا۔ حیدرآباد دکن میں مسلم آبادی آج بھی کثیر تعداد میں ہے۔ اب راہ چلتے ہوئے پٹیل مجھ سے ملا اور مجھ سے گلے ملا۔ میں نے پٹیل سے خیریت پوچھی ۔ پٹیل نے مجھے کہا کہ یار میں فیزیبلٹی سٹڈی کروانے آیا ہوں۔ میں نے فوراً اس سے پوچھا کہ کیا فیزیبلٹی رپورٹ بن گئی؟ نے کہا ابھی نہیں بنی تین مہینے کا مجھے ٹائم دیا گیا ہے اس میں میں نے کام مکمل کرنا ہے ۔ اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا کہ میں تمہارا یہ مسئلہ حل کر دیتا ہوں اور دو مہینے کے عرصے میں یہ مکمل کر دوں گا۔ وہ بڑا حیران ہوا اور تجسس سے پوچھا کہ کیا تمہیں فیزیبلٹی رپورٹ بنانی آتی؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ میں نے کہا کہ کمپنی آپ سے کتنا مانگ رہی ہے فیزیبلٹی رپورٹ بنانے کا؟ اس نے کہا کہ پانچ ہزار ڈالر۔ میں نے اسے کہا کہ تم پریشان نہ ہو میں تمہیں چار ہزار ڈالر میں بنا دوں گا۔ اب اس نے کھڑے کھڑے مجھے چار ہزار ڈالر کا کام دے دیا۔ میرا اب اگلے چار مہینے کازاد راہ آگیا۔ اب میں نے محنت کی کام کیا ریسرچ کی اور اس کو فیزیبلٹی رپورٹ بنا کر مکمل کر دی۔ وہ مجھ سے بہت متاثر ہوا اور پیسے اس نے مجھے بھیج دیے۔ اگر آپ کو خود اعتمادی ہو اور اگر آپ کو بھروسہ ہو تو آپ کے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
سہیل عزیز: ڈاکٹر صاحب آپ کی بات کو میں ایک شعر کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شِرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!
ڈاکٹر علی ساجد: کیا آخر میں آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
سہیل عزیز:آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم نے کافی تفصیل سے بات کی۔ مختصر طور پہ میں یہ کہوں گا۔ میں کہتا ہوں یقین کے ساتھ ،ایمان کے ساتھ کہ آج کے نوجوانوں کے پاس بے پناہ مواقع موجود ہیں اور یہ مواقع ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ کیونکہ یہاں پہ محنت کرنے والے اور احسن طریقے کے ساتھ محنت کرنے والے بہت کم ہیں۔ جو بھی کچھ کر کے دکھانے والا ہوگا وہ مواقع لے جائے گا ۔ وہ بادشاہ ہے اور میں کہتا ہوں کہ نوجوانوں کو بادشاہ بننا چاہیے۔