انڈیا کی چاند تک رسائی اور پاکستان کی خلائی تحقیق
اللہ تعالیٰ کے شکر سے ہمارا سرمایہ افتخار سپارکو(SPARCO) کا ادارہ چائنہ کے ساتھ مل کر کافی اہم کام سرانجام دے رہا ہے۔ ہمیں اس سے بجا طور پر بہت امید ہے کہ آئندہ ہمارے بہت سارے امور سرانجام پائیں گے۔یہ ادارہ ہماری مدد کرے گا سیلاب میں ، موسمی حالات کے بارے میں، خلائی معلومات کے بارے میں ہمیں بہت ساری مدد فراہم کرے گا۔اور ہمیں بہت امید ہے کہ اس سے ہمارے مواصلاتی نظام میں بہت خوش نما تبدیلیاں رونما ہوں گی۔اور یہ ہمارے اور چین کے درمیان میں جو سی پیک(CPAC) معاہدہ ہے اس میں ایک مثبت اضافہ ہوگی۔
![]() |
انڈیا کی چاند تک رسائی اور پاکستان کی خلائی تحقیق |
اب میں آپ کو مختصر طور پر بتاتا ہوں کہ انڈیا نے اپنا یہ سپیس سیٹلائٹ پروجیکٹ کب اور کیسے شروع کیا؟۔1969ء وہ سال ہے جب اپولو مشن کامیاب ہوا اور تقریباً یہی وہ سال ہے جب انڈیا بھی اپنے سپیس سیٹلائٹ پروجیکٹ میں آگے آیا۔اس کے بعد 1990ء میں انڈیا نے خلا ء میں اپنا خود کار راکٹ بھیجا ۔اس کے بعد انڈیا نے 2014ء میں مریخ کے اوپر اپنا راکٹ بھیجا۔اس قدم کے بعد انڈیا امریکہ روس اور چین کے بعد چوتھا ملک بن گیا جس نے چاند کے بعد مریخ کے اوپر قدم جمانے کی کوشش شروع کی۔یہ تھوڑا سا جائزہ ہے انڈیا کے سپیس سیٹلائٹ پروجیکٹ کا۔فِل وقت انڈیا کے 462 خلائی سیٹلائٹ خلاء میں موجود ہیں۔ یہ میرا اندازہ ہے انڈیا کے بارے میں کہ وہ اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اپنی سپیس ٹیکنالوجی کسی کو بیچ سکےاور انڈیا کو یہ کام کرنا بھی چاہیے۔اور اس سے یقینا انڈیا کا معاشی لیول اوپر جائے گا اس کا زرِ مبادلہ بڑھے گا ، انویسٹمنٹ بڑھے گی اور ان کو ایک معاشی فائدہ حاصل ہوگا بہت بڑا۔ انڈیا کی سپیس ٹیکنالوجی نہ صرف اس کو موسمی ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں معلومات مہیا کرے گی بلکہ ان کو دفاعی لحاظ سے بھی ایسا مواد مہیا کرے گی جو کہ ان کے لیے بہت ہی مفید ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ٹیکنالوجی میں کامیاب ہونے کے بعد وہ اس ٹیکنالوجی کو بیچنا شروع کر دیں گے جس سے انہیں پیسہ آنا شروع ہو جائے گا ۔
میں یہ سمجھتا ہوں پاکستان جیسے ملک کو اگر آگے بڑھنا ہے پہلے درجے کے ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سپیس وہ واحد میدان ہے جس میں جلد از جلد کودنا ضروری ہے۔جو جو سپیس میں جتنا گہرا ہوتا جائے گا اس کی ٹیکنالوجی میں بہتری آئی گی اور وہ اتنا ہی ایڈوانس ہوتا چلا جائے گا اور یہ اس ملک کے لیے بہت ہی مفید ہے۔
اس حوالے سے مجھے ایک سردار جی کا لطیفہ یاد آتا ہے اور یہ بیان کرنے کے بعد میں مختصر کرنا چاہوں گا۔ کہ پرانے دور میں کہتے ہیں کہ ایک سردار جی نے دوڑ میں حصہ لیا ہے اور اس دوڑ میں وہ پہلے نمبر پر آگیا۔ لوگوں نے سردار جی کو مبارکباد دی اور کہا کہ سردار جی آپ پہلے نمبر پر کیسے آگئے؟ سردار جی نے کہا کہ باقی باتیں چھوڑیں مجھے صرف یہ بتائیں کہ میرے پیچھے کتا کس نے چھوڑا تھا۔۔۔!
جس طرح سردار جی کے پیچھے کتا لگنے سے سردار جی پہلے نمبر پر آگئے اسی طرح 1974ء میں جب انڈیا نے اپنے ایٹمی تجربات کیے تو اس وقت جو پاکستان کے پرائم منسٹر تھے وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے انڈیا کے خوف سے اور اس کا یہ فائدہ ہوا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔پاکستان کے وزیراعظم نے بھی 1974ء میں یہ اعلان کیا کہ ہم بھی انڈیا کے مقابلے میں جلد کچھ کرنے والے ہیں۔اس کے تقریباً چھ سال بعد میں نے دیکھا کہ انٹرنیشنل میڈیا کے اوپر یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پاکستان کے پاس پہلا اسلامک اٹامک بم موجود ہے۔ اب دیکھیں جس وجہ سے بھی پاکستان ایک نیوکلیئر ملک بنا لیکن بن گیا اور اس حوالے سے پاکستان نے بہت ترقی کر لی اور یہی مثال کافی ہے کہ ہم باقی شعبوں میں بھی ترقی کر لیں۔
مختصر یہ کہ اب سپیس کی دوڑ میں جو بھی ریسرچ ہوگی جو بھی بہترین ٹیکنالوجی ہوگی اس کو دوسرے ممالک خریدیں گے اور ہمیں بھی اس مارکیٹ میں شامل ہو جانا چاہیے۔اور مجھے یہ پوری امید ہے کہ ہمارے پالیسی بنانے والے سپیس کے اس پہلو کو ضرور اہمیت دیں گے اور وقت پر ایسے اقدامات کریں گے جس سے آئندہ وقت میں پاکستان کو، پاکستان کی قوم کو پاکستان کی اگلی نسل کو فائدے حاصل ہوں گے۔پاکستان کا شمار دنیا کے سات بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ برازیل بھی پاکستان کے سپیس پروگرام کو دیکھا کرتا تھا اب یہ ہے کہ برازیل جی سیون ،جی 20 کی باتیں کرتا ہے۔اب برازیل کا برکس (BRICS)میں ایک میجر رول ہے اور ہم ابھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ اب ہم ان کے مقابلے میں اس فہرست میں کیسے شامل ہوں؟۔ پاکستان اس فہرست میں تب ہی شامل ہو سکتا ہے جب وہ وقت پر ایسے اقدامات کرے گا ٹیکنالوجی کے ایسے پہلو کے اوپر غور کرے گا جو مستقبل میں ایک مقام حاصل کر جائیں گے۔
We should learn....
ReplyDelete