ویتنام کی ترقی کا راز

Dr. Ali Sajid
0

ویتنام کی ترقی کا راز

 پچھلے ہفتے مجھے چار پانچ دن کے لیے ویتنام جانے کا موقع ملا۔ویتنام جنوب مشرقی ایشیائی ملک ہے۔ویت نام کا دارالحکومت "ہنوئی" ہے ۔میں پاکستان کے تین ممبرز کے وفد  کے ساتھ ایک بینچ مارکنگ دور ے پہ گیا تھا ۔ وہاں پر ہم نے منسٹری آف سائنس کے ذیلی اداروں کا  سروے کیا۔ہمارا یہ دورہ سپانسرڈ تھاای پی او جاپان کی طرف سے۔ہم نے وہاں جا کر ان کی ترقی کی وجوہات دیکھیں وہاں کا کلچر اور ثقافت دیکھی۔وہاں جا کر میں بڑا محظوظ ہوا۔
ویتنام کی ترقی کا راز
ویتنام کی ترقی کا راز

مجھے یاد ہے میں جب بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا تو میں ویتنام کی جنگ کی باتیں کرتا تھا اور جب میں وہاں پر گیا میں نے ان کی ثقافت دیکھی ان کی ہسٹری کے بارے میں  بہت پڑھا اور بہت کچھ جانا۔  ان کی معیشت  کو بھی میں نے دیکھا۔ جو کچھ میں نے دیکھا جو کچھ میں نے ان کے  متعلق میں پڑھا تو جستہ جستہ  دو تین منٹ میں آپ کو بیان کر دیتا ہوں۔
میں اپ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ ویتنام کیسے ترقی کر گیا کن وجوہات کی بنیاد پر اس نے ترقی کر لی اور اس کے برعکس پاکستان ترقی نہیں کر سکا ۔ اس کے تقابلی جائزہ کے ایک حصہ میں آپ کو آج  کچھ بیان کر دیتا ہوں اور دوسرا حصہ ہم اگلی نشست پہ کر لیں گے۔
ویتنام پر یورپی ممالک  نے وہی ظلم کیا جو کہ ایشیا پر برطانیہ نے کیا تھا۔ویتنام میں کالونیل پاور کا جو نام تھا وہ فرانس تھا۔ یہاں پر 1857 میں فرانس نے قبضہ کیا۔ اور اپنا گورنر جنرل مقرر  کیا 1873ء میں ملکہ نے قبضہ کر کے ویتنام کو اپنی کالونی میں شامل کر دیا۔ ویتنام کی تاریخ تقریبا سوا سو ہزار سال پرانی ہے اور بعض اوقات تو اس کی تاریخ قبل مسیح میں نظر آتی ہے۔  1831ء میں ہنوئی کو ویتنام کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ 1873 میں فرانس نے قبضہ کیا اور یہ قبضہ تقریبا 1940یا 1945ء تک رہا تقریبا میرے خیال میں 1940 تک قبضہ رہا ۔
جب دوسری جنگ عظیم میں فرانس پر ہٹلر نے قبضہ کر لیا تو فرانس کو مجبورا ً ویتنام سے بھی اپنا قبضہ ہٹانا پڑا۔ دوسری طرف جاپانیوں نے  جو ہٹلر کے اتحادی تھے انہوں نے ویتنام پر قبضہ کر لیا اور جب جاپان نے یہ جنگ ہاری تو اس کے ساتھ دوبارہ وہاں  ہی فرانسیسی آگے ۔
فرینچ نے پھر ان سے جنگ لڑی اور اس کو انڈو چائنا وار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1945 سے لے کے 1954 تک تقریباً یہ قوم حالت جنگ میں رہی اور 1954ء میں تقریبا فرانس سے انہوں نے اپنی جان چھڑا لی۔ ہنوئی کو باقاعدہ دارالحکومت قرار دیا گیا۔اور ویتنام کا جو فادر اف نیشن تھا اس کا نام ہوچی من تھا اور اور بعد میں ان کا ایک شہر تھا سائیگان اس کا نام بھی تبدیل کر کے ہوچی من کے نام پہ رکھ دیا گیا۔
یہ تھوڑا سا طریقہ تقابلی جائزہ میں نے آپ کو پیش کیا کیونکہ ویتنام کی آزادی میں چائنہ اور روس  کا ایک بہت بڑا اثر و رسوخ تھا۔یہاں پر کیمونزم کا بہت اثر و رسوخ تھا۔اور اس دوران سرد جنگ  شروع ہو چکی تھی( کیپیٹل ورسز کمیونزم) دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔اس سرد جنگ میں ویتنام نے کیپیٹل بلاک کے بجائے کیمونزم بلاک کو جوائن کیا اور اس کا حصہ بن گئے۔اور یہاں پر  جو کمیونزم کے حوالے سے سوشلسٹ کی حکومت آئی یہ معاملہ امریکہ کو جو کہ کیپیٹلزم کا ایک بانی تھا اور اس کا نمائندہ تھا تو اس کو یہ پسند نہیں آئی۔
امریکہ نے برطانیہ اور بہت سارے ممالک سے مل کر ویتنام میں 1954 سے لے کے تقریبا 1975 تک جو کہ تقریبا 20 سال بنتے ہیں یہ جنگ لڑی۔اس دوران ویتنام میں خانہ جنگی رہی امریکہ نے اپنی ایک روایت کے مطابق جنوب مغربی  ویتنام کے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ویتنام کے جنوب میں انہوں نے ایک کٹھ پتلی حکومت بنا لی اورشمالی ویتنام  میں کیمونسٹ کے ماننے والے موجود تھے۔اس طرح ویتنام کے جنوبی اور شمالی حصے کے درمیان تقریباً 20 سال تک خانہ جنگی رہی۔ویتنام کے ایک شمالی حصے کو روس اور چین نے سپورٹ کیا اور دوسری طرف امریکہ اور باقی مغربی ممالک نے جنوبی حصے کو سپورٹ کیا ۔
اس کے بعد تقریباً دو جولائی 1974ء کے بعد ویتنام نے باقاعدہ آزادی حاصل کر لی آزادی کے بعد  جنوبی ویتنام اور شمالی ویتنام کے درمیان اتحاد ہو گیا اور ایک بڑی حکومت بن گئی۔شمالی ویتنام نے جنوبی ویتنام پر باقاعدہ قبضہ کر لیا جس کا دارالحکومت سائیگون تھا اور اس کا نام ہوچی من سٹی رکھ دیا گیا۔مجھے ویتنام میں ہنوئی میں رہنے کا موقع ملا ہنوئی ان کا تاریخی شہر ہے اور لاہور سے ملتا جلتا شہر ہے۔
یہاں پہ بہت ساری چیزیں لاہور اور ہنوئی کے درمیان ملتی جلتی  ہیں۔  مثال کے طور پہ یہاں پہ دریائے راوی  اس کے قریب بہتا ہے اور ہنوئی کے قریب ایک ریڈ ریور وہاں پہ بہتا ہے۔ شہر کے اندر اور شہر کے ارد گرد ہنوئی میں بہت ساری جھیلیں ہیں اور ان کی کلچر، ثقافت و  سیاست ہمارے پاکستان کے بہت سارے علاقوں سے ملتی جلتی ہے بالخصوص لاہور کے علاقے سے ملتی جلتی ہے۔
ان کا کلچر بہت  شاندار ہے ثقافت کے لحاظ سے ان کی مذہبی عبادت گاہ کا نام پکوڈا ہے۔وہاں پہ پانچ پانچ ہزار سال پرانے پکوڈے عام ملتے ہیں جیسے لاہور میں یہاں پہ ہزار سال پرانی مسجدیں ملتی ہیں۔وہاں پر پکوڈے ملتے ہیں اس طرح سے۔ہنوئی شہر کے لوگ بھی بہت ملنسار اور سیاحت کو پسند کرنے والے ہیں ۔
1986 میں ویتنام جس معاشی پالیسی پر یا کمیونسٹ سٹریٹجی پہ چل رہا تھا اس نے اس کو چھوڑ دیا اس کو "سینٹرالائزڈ پلینڈ اکانومی" کہتے تھے۔سنٹرلائزڈ لینڈ ایکانمی کو ترک کرنے کے بعد انہوں نے اپنی سوسائٹی کو لبرلائز کرنے کی کوشش شروع کر دی۔لبرلائز کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت نے وہاں سے اپنا کنٹرول ختم کرنا شروع کر دیا اور جب گورنمنٹ نے اپنا کنٹرول اور قبضہ ہٹانا شروع کر دیا تو پرائیویٹ سیکٹر وہاں پہ مضبوط ہونا شروع ہو گیا اور بزنس شروع ہو گیا ۔ وہاں پہ سیاحت شروع ہو گئی اور پھر انہوں نے بیرونی سرمایہ کاری کو  خوش آمدید کہا۔
1993- 94ء میں میں واشنگٹن ڈی سی میں تھا اس دوران میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی انٹرنیشنل ویتنام کانفرنس تھی جس میں امریکہ اور برطانیہ  اور بہت سارے ممالک نے اربوں ڈالرمختص کیے ویت نام میں انویسٹمنٹ کے لیے۔اور بعد میں جب  پچیس ، تیس سال کے بعد میں ہنوئی خود گیا تو میں نے اس انویسٹمنٹ کے اثرات دیکھے وہاں پر۔
بڑی عجیب سی بات ہے وہاں کی آ بادی تقریبا 10 کروڑ ہے۔ ویتنام کا رقبہ تقریبا پاکستان سے آدھا ہے ان کے ذرائع آمدن بھی کوئی خاص نہیں ہیں۔ ویتنام زیادہ تر چیزیں اپنی امپورٹ کرتا ہے ان کی جو چار سال پہلے کی ایکسپورٹ تھی وہ 2.67 بلین ڈالر تھی اور یہ 2019 کےاعداد و شمار  ہیں۔ہماری آبادی 25 سے 26 کروڑ ہے اور ان کی 10 کروڑ۔ان کے شہر ہنوئی کی جو آبادی ہے وہ 80 لاکھ ہے اور ہمارے شہر لاہور کی آبادی تقریبا ڈیڑھ کروڑ۔
ایک چھوٹا سا میں نے جائزہ پیش کیا ہے ۔ اب آپ کو یہ بتانا ہے کہ اب انہوں نے ترقی کی کیسے؟ غربت سے انہوں نے اپنے اپ کو کیسے نکالا اور ان کی یہ ساری ترقی کا سلسلہ 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا جب انہوں نے اپنی معیشت کو لبرلائز کرنا شروع کر دیا۔ویتنام نے 1990 کی دہائی میں جب سنٹرلائزڈپلینڈ ایکانمی سے شفٹ کیا اور انہوں نے سیمی کیپیٹل سسٹم یا پرائیویٹائزڈ سسٹم کو پروان چڑھایا ۔
پاکستان میں تقریبا چار پانچ سال یہ دورانیہ رہا جب ذوالفقار علی بھٹو نے سوشل لسٹ ایکانمی کو لاگو کرنے کی کوشش کی سنٹرلائزڈ پلان ایکانمی ا پنانے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ پاکستان تب سے اب تک تقریباً کیپیٹلسٹملک ہی رہا اور آج بھی پاکستان ایک کیپیٹلسٹ ملک ہے۔
پاکستان ایک کیپیٹلسٹ ملک ہے اسی لیے بیرونی سرمایہ کاری  پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔کمیونسٹ ملک کے پیچھے جو بیرونی سرمایہ کاری آئی ہے یورپ کی طرف سے اس کا تمام  ایکسپورٹ میں تقریبا 70فیصد حصہ ہے ۔ مثال کے طور پہ اگر 2019 میں ان کی  ایکسپورٹ 2.67 بلین تھی تو اس کا 70 فیصد حصہ بیرونی سرمایہ کاری  سے آتا تھا۔میں نے وہاں پہ خود دیکھا کہ بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں پر موجود تھی ان کے وہاں پہ دفتر تھے ۔ان کی وہاں پہ سرمایہ کاری تھی ۔بہت ساری سپورٹس کی کمپنیاں ہوزری کی کمپنیاں اور بہت ساری میڈیکل کی کمپنیاں گارمنٹس  کی کمپنیاں وہاں پر موجود تھیں ایڈوانس ہائی ٹیکنالوجی کے بھی وہاں پہ کمپنیز موجود تھیں۔ بھاری  مشینری بھی وہاں پہ بناتے ہیں وہاں کی کمپنیز وہاں پر بھی موجود ہیں اور کام کر رہی ہیں۔ان بیرونی  کمپنیز کا وہاں پہ ایک ہی مقصد یا  نقطہ  تھااور وہ تھا استحکام ۔ویتنام کی حکومت نے ون ونڈو سہولت دی ۔ ان کو گارنٹی دی سہولت دی تاکہ سرمایہ کاری  باہر سے آئے۔انویسٹمنٹ کرنے والوں کو قانونی تحفظ دیاسرمایہ کاری  کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے تاکہ باہر سے سرمایہ کاری مزید آئے انہوں نے سیاسی استحکام دیا جو کہ سب سے اہم تھا۔اور نتائج یہ ہیں کہ میں ہنوئی میں چار دن رہا آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ مجھے ایک بھی بھکاری نظر نہیں آیا وہاں پر۔ویتنام کی حکومت نے ہنوئی کی بڑی بڑی شاہراؤں پر چھوٹے چھوٹے کھوکھے بھی ختم کر دیے تاکہ سیاحت خراب نہ ہو۔اب ہنوئی شہر کا کلچر صاف ستھرا کلچر ہے۔اورآج سے 25 سال پہلے بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئی اب بڑی بڑی عمارتیں اتنی زیادہ ہیں ایسا لگتا ہے کہ ایشیا کا نیویارک ہے۔اور غربت تقریبا ختم ہو چکی ہے وہاں پر۔پہلے 15 سے 20 سالوں میں ایکانمی کو لبرلائز کرنے کے بعد 50 فیصد تک غربت کو ختم کر دیا انہوں نے۔

یہ وہ ریفارمز ہیں جو ابھی تک پاکستان میں ہونی ہیں۔جس میں ٹیکس ریفارمز ہیں جس میں انویسٹمنٹ ریفارمز ہیں جس میں پروٹیکشن آف فارن انویسٹمنٹ ہے۔اور عدالتوں کے بے پناہ اختیارات جو کہ بالکل مفید نہیں ہے۔بیوروکریسی کے بہت سارے مسائل ہیں اور یہ تمام مسائل تقریباً ویتنام کی حکومت نے ان کو ختم کر دیا۔ان اقدامات کے سبب اب ویتنام کی 70 فیصد ایکسپورٹ کا جو حصہ ہے وہ بیرونی کمپنیز کی طرف سے ہوتا ہے۔جس میں جوتے کی فیکٹریاں ہو گئیں بھاری صنعت کو انہوں نے بہت انسٹال کیا اور سپورٹس کے اوپر بہت سارا کام کیا انہوں نے۔ویتنام کی 231 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ تو صرف بوائلر اور الیکٹرانکس کے ڈیوائسز کی ہے ۔ یہ پاکستان جیسے ملکوں میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔وہاں پہ ایک عام شخص کے چہرے پر خوشحالی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ہاں البتہ کچھ چیزیں ایک جیسی ہیں جس طرح وہاں پہ ہوٹلنگ کا اور کیفے کا سسٹم تقریباً ایک جیسا ہے۔لاہور کی طرح وہاں ایک دو نہیں بلکہ 25 ۔50 فوڈ سٹریٹس ہیں۔یہاں پہ کوئی ایک دو شاپنگ مالز نہیں ہیں بلکہ درجنوں شاپنگ مالز ہیں۔جہاں پر لوگ شاپنگ کرتے ہیں۔جہاں پر گورنمنٹ نے مداخلت کر کے اقدامات کر کے لوگوں کو سطح غربت سے نکال دیا۔مجھے لگتا ہے بہت کم عرصے میں ویتنام میں جو پانچ سات فیصد غربت رہ گئی ہے وہ بھی مجھے لگتا ہے ختم ہو جائے گی میں نے ہنوئی میں صرف چند کہیں کہیں لوگ دیکھے ہیں  جو رات کو گلیوں میں سو رہے تھے۔باقی اکثر لوگ بڑے بڑے خوبصورت فلیٹس میں اپنے گھروں میں سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔اب ہر بندہ ویتنام میں اتنا کما رہا ہے کہ اس کو حکومت سے بھیک مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔یہ میں نے آپ کو تھوڑا سا ہنوئی کا پس منظر بتایا آئندہ میں آپ کے لیے مزید وضاحت کروں گا۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !